امام کے گرانقدر یادگار نے اجتماعی اقدامات میں شجاعت و دلیری سے کام کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا: عقل اور تدبیری سے ہٹ کر کوئی بھی دلیرانہ اقدام ممکن ہے کہ کسی احمقانہ عمل پرختم ہو اور داعشی فعل میں تبدیل ہو؛ اگرچہ ایسے اقدامات کے عاملین یہ خیال کریں کہ بالکل صحیح کر رہے ہیں ۔
جماران کے مطابق: حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے اظہار فرمایا: سیداحمد خمینی(رح) کے نام امام راحل (رح) کے عرفانی خطوط میں سے ایک کا مضمون مؤمنین اور علمائے عرفان کا دنیا کے فراز و نشیب کو اہمیت نہ دینے سے متعلق ہے،امام(رح) اس خط میں نقل کرتے ہیں : "رضاخان پہلوی کے دورمیں جن دنوں علماء پر لباس بدلنے پر بہت زیادہ دباؤ تھا روحانی حضرات اوراہل حوزہ انتہائی سختی میں تھے،ایک روز میں نے روٹی کی دکان پر تقریباً ایک شریف اور زاہد عالم کو دیکھ جو روٹی کا ایک تکڑا کہا رہاتھا،میں نےاسے یہ کہتے ہوئے سُنا: مجھ سے کہا گیا عمامہ اتراؤ میں نے عمامہ ہٹادیا اور کسی کو دیا اس نے اس سے دو قمیص سیلیا، ابھی میں نے روٹی کھایا ہے پیٹ برھ چکاہے،رات تک اللہ بڑا ہے ۔
میر ے بیٹے! اگرمیں یہ کہوں کہ اس مقام کے لئے میں اپنی تمام دنیوی مقامات دینے کے لئے تیارہوں ۔ تو یقین کرو ۔ لیکن یہ بہت دور اور اونچا مقام ہے، خاص کر مجھ جیسے كے لئے جو ابلیس اور خبیث نفس کے مختلف جالوں میں گرفتار ہے ۔ '' (صحیفه امام، ج18، ص511)
یادگار امام نے تصریح کی : ایک عارف کی دنیاسے دوری والی نگاہ اگر کامل ہو شجاعت ایجاد کرتی ہے اور پھر یهی شخص دوسروں کے حقوق کی پایمالی اور ظلم و زیادتی پرہرگز خاموش اور بے طرف نہیں کرسکتا ؛ ایسی حالت میں عرفان ایک عظیم اور مقدس حماسہ (جذبہ) میں تبدیل ہوجاتاہے ۔