ہمیں ایک ایسے دین کی ضرورت ہے جو پہلے دن سے انسانوں کی پرورش اس طرح کرے کہ انہیں انسانی کمالات کی طرف لے کر جائے۔ آپ ملاحظہ فرمایئے کہ کیا پوری دنیا میں آپ ایسا دین تلاش کرسکتے ہیں جو ایک انسان کی تربیت کیلئے اس کے ماں باپ کی شادی سے پہلے ہی فعالیت کرے اور حکم دے؟ دنیا میں جتنے مکاتب بھی ہیں وہ تمام اس موجودہ انسان سے سروکار رکھتے ہیں جو چل پھر رہا ہے اور بڑا ہوچکا ہے۔
دو انسانوں کے درمیان ازدواجی بندھن قائم ہونے سے پہلے ہی اسلام اس سے کہتا ہے کہ کس طرح کے ساتھی کا انتخاب کرو۔ عورت سے کہتا ہے کہ کس طرح کے شوہر کا انتخاب کرو۔ کس طرح کا ہونا چاہیے اس کا ذکر یہاں کرتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ کیونکہ یہ میاں اور بیوی ایک فرد یا کئی افراد کی بنیاد اور اساس ہیں ۔ اسلام چاہتا ہے کہ جو فرد وہ معاشرے کے سپرد کرنا چاہتا ہے وہ ایک صالح فرد ہو۔ شادی کرنے سے پہلے ہی کہتا ہے کہ عورت کس طرح کی ہو، شوہر کس طرح کا ہو۔ اس کا اخلاق کیسا ہو، اس کا کردار کیسا ہو، کس طرح کے خاندان میں اس کی تربیت ہوئی ہو، شادی کا بندھن قائم ہوجانے کے بعد یہ دونوں آپس میں کس طرح پیش آئیں ، حمل ٹھہر جانے کے بعد کے کیا آداب ہیں ، حمل کے زمانے کے کیا آداب ہیں ، بچے کی نگہداشت کس طرح کی جائے؟ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ فرد جو ان دو افراد سے وجود میں آ رہا ہے معاشرے میں ایک صالح فرد کے عنوان سے سامنے آئے تاکہ پوری دنیا میں یہ صلاحیت پیدا ہو۔ اسلام انسان کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ شادی کا بندھن قائم ہونے سے پہلے ہی اس نے یہ کام شروع کیا ہے۔ وہاں سے اس نے شروع کیا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ کیا کرو، کونسا کام انجام دو یہاں تک کہ بچہ دنیا میں آجاتا ہے، دودھ پلانے کے دوران کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ماں اور باپ کی آغوش میں اس کا کیسے خیال رکھا جائے۔ پھر ان چھوٹے اسکولوں ، ان پرائمری اسکولوں میں کیا کریں ، اس کے بعد ہائی اسکول میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اساتذہ کو کیسا ہونا چاہے، بچوں کا مربی کیسا ہونا چاہیے، بعد میں جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے اس وقت اسے کیسا ہونا چاہیے، کس طرح کے کام اسے انجام دینے چاہیں ، کس طرح کے اعمال سے بچنا چاہیے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں جو افراد پیدا ہوں وہ سب صالح ہوں ، سب صحیح ہوں ۔
(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۳۲۷)