تحریک امام حسین  (ع) کے آثار ونتائج

تحریک امام حسین (ع) کے آثار ونتائج

ہم نہیں سمجھ پاتے کہ قرآن کریم اور اسلام کا کیا حشر ہوتا

اگر عاشورا اور خاندان پیغمبر  ﷺ کی فداکاری نہ ہوتی تو نبی اکرم  ؐ کی رسالت اور ان کی جان فرسا زحمتوں  کو اس زمانہ کے طاغوت نابود کردیتے اور اگر عاشورا نہ ہوتا تو ابو سفیانیوں کی منطق جاہلیت رائج ہوجاتی جو یہ چاہتے تھے کہ کتاب خدا اور وحی الٰہی پر خط بطلان کھینچ دیں  اور بت پرستی کے تاریک دور کی یادگار یزید کے ہوتے ہوئے جو اپنے زعم ناقص میں  فرزندان وحی کو قتل کر کے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا اور اپنے اس اعلان کے ساتھ کہ {لا خبر جآء ولا وحي نزل} اسلام کی بنیادوں  کو کھوکھلی کرنا چاہتا تھا۔ ہم نہیں  سمجھ پاتے کہ قرآن کریم اور اسلام کا کیا حشر ہوتا۔ لیکن خداوند متعال کا ارادہ یہ تھا اور ہے کہ نجات بخش اسلام اور ہدایت افروز قرآن کو زندہ جاوید رکھے اور فرزندان وحی جیسے شہدا کے خون سے اس کی حمایت وبقا کا انتظام کرے اور آسیب دہر سے محفوظ رکھے اور عصارہ نبوت  ؐ اور یادگار ولایت، حسین بن علی  (ع)  کو ابھارے کہ وہ اپنی اور اپنے عزیزوں  کی جان کو اپنے عقیدے اور پیغمبر  ؐ کی امت پر قربان کریں  تاکہ ہر دور میں  ان کا خون پاک جوش میں  آئے اور دین خدا کی آبیاری کرے اور وحی اور اس کے نتائج کی محافظت کا فریضہ انجام دے۔

(صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۴۰۶)

ای میل کریں