جس وقت مجاہدین ۱؎نے شور شرابا کیا اور ایک دو حملے بھی ہوئے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ شاہ کی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے علماء نے ان مجاہدین کی ترویج کرنا شروعی کر دی تھی۔ بعض تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ان مجاہدین کو مالی امداد دینے لگے تھے اور بعض کی حمایت کا یہ عالم تھا کہ اس تنظیم میں شامل ہونے لگے۔ ہر محفل میں انہی لوگوں کی اچھائی اور دین وتقویٰ کی بات ہو رہی تھی۔ مسئلہ یہاں تک پہنچا کہ بعض مراجع عظام نے بھی ان کی حمایت میں بیانات دے دئیے۔ جس وقت اس پارٹی کے بعض ارکان کو شاہ پھانسی دینا چاہتا تھا تو لکھا گیا کہ یہ لوگ دیندار اور قرآن کے پاسبان ہیں ان کو پھانسی نہ دیا جائے۔ لیکن ان حالات میں سب کے ذہنوں میں یہ سوال گھوم رہا تھا کہ امام جو کہ شاہی حکومت کے سب سے بڑے مخالف ہیں وہ ان افراد کے بارے میں کیوں بالکل خاموش ہیں ؟ یہاں تک کہ موجودہ شخصیات میں سے ایک بڑی شخصیت نے مجھے تہران بلایا اور کہا: میں نے سنا ہے کہ تم نجف جا رہے ہو۔ میں نے کہا: جی ہاں ! انہوں نے کہا: امام سے کہنا کہ یہ لوگ آیندہ چل کر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالیں گے اور اس وقت آپ مجبور ہوں گے ان کی حمایت پر اور اس وقت آپ کی حمایت کا وقت نکل چکا ہوگا۔ لہذا ابھی آپ ان کی حمایت کریں ۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں گیا اور امام ؒ سے کہا۔ امام خاموش رہے۔ امام ؒنے نہ ان کی حمایت کی اور نہ ان کی مالی کوئی مدد کی نہ ان کی حمایت میں کوئی بات کہی۔ جب اس طرح ان کے بارے میں امام ؒ کے سکوت کو دیکھا تو میں نے اس کی وجہ پوچھی۔ امام خمینی ؒنے فرمایا: ’’میں نے ان کی کتابوں کو پڑھا اور دیکھا ہے کہ ان کی کتابیں اسلامی نہیں ہیں ۔ ان میں گمراہی پائی جاتی ہے۔ اس لیے میں نے ان کی تائید نہیں کی‘‘۔ امام نے ان کی ساری کتابیں قم وتہران اور مشہد میں پڑھ لی تھیں ۔
۱۔ مجاہدین خلق پارٹی جو ملت سے خیانت کے نتیجے میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد منافقین کے نام سے مشہور ہوئی۔