امام ؒ پیغامات وتقاریر کے علاوہ مختلف جگہوں کیلئے کافی سارے خطوط بھی لکھتے تھے۔ میں بھول نہیں سکتا کہ ۱۳۴۱ ھ ش (۱۹۶۲ ئ) کو صوبائی وملکی انجمنوں کے مسائل کے حوالے سے حاج سید مصطفی شہید کہتے تھے کہ امام رات کو دو یا تین گھنٹہ سے زیادہ نہیں سوتے اور باقی وقت ملک بھر کے علماء کو خطوط لکھنے میں گزارتے ہیں ۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ امام نے صوبوں کو سینکڑوں خطوط لکھے۔ اس طرح ملک بھر کے علماء کو جہان اسلام پر لاحق ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتے تھے اور ان خطوط کے ذریعے امریکہ واسرائیل کی سازشوں کو بر ملا کرتے تھے کہ جن کا مقصد اسلام کو مٹانا تھا۔
امام ؒ کے بعض خطوط جو علماء کے نام مرقوم ہوتے تھے وہ کبھی کبھار شائع بھی ہوتے تھے اور اس کا بڑا اثر ہوتا تھا اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف ایک لہر اٹھ کھڑی ہوتی تھی۔ انہی خطوط میں سے ایک خط جو مجھے یاد ہے صوبائی اور ملکی انجمنوں کے سلسلے میں تھا جس کو امام نے آقائے فلسفی ؒ کے نام لکھا تھا۔ آقائے فلسفی نے اس خط کو مسجد ارک کے منبر سے پڑھ کر سنایا۔ میں خود اس مجلس میں موجود تھا۔ جب آقائے فلسفی نے کہا: ’’یہ ہے! آیت اﷲ خمینی کا خط‘‘ تو سارے سامعین ایک دفعہ چونک گئے اور کان کھول کے متوجہ ہوگئے واقعاً امام کا خط ایسا ہوتا تھا کہ جس سے لوگ بیدار ہوجاتے تھے۔ امام نے اس خط کے آخر میں پورا سورۂ فیل بھی تحریر کیا تھا۔ جب آقائے فلسفی نے یہ سورہ پڑھنا شروع کیا تو لوگ اس قدر جذبات میں آگئے کہ آیت کے آخری کلمہ کو وہ سب بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ مثلاً جس وقت آقائے فلسفی پڑھتے کہ { باصحاب الفیل، فی تضلیل} تو لوگ یک صدا ہو کر آقائے فلسفی کے ساتھ ’’ فیل‘‘ اور ’’ تضلیل‘‘ کی تکرار کرتے تھے۔مسجد ارک میں امام ؒ کے اس خط نے لوگوں کے اندر ایک عجیب جوش وجذبہ پیدا کردیا تھا اور ایک ترانہ کی حالت اختیار کر گیا تھا۔