حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پیر کی صبح اسلامی ریڈیو ٹیلیویژن کی یونین اور عالمی مجلس اہل بیت(ع) کے چھٹے اجلاس میں شرکت کے لئے آئے ہوئے علما، دانشوروں اور مہمانوں سے ملاقات میں خطے میں استکبار کی سازشوں سے مقابلے کو جہاد فی سبیل اللہ کا واضح نمونہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی مجلس اہل بیت(ع) کے چھٹے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسلامی معارف کی ترویج، احکام الہی کا احیا، اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی راہ میں تلاش و کوشش اور ظلم و ظالم سے مقابلے کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت(ع) کی پیروی اور اطاعت کا لازمہ قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ خدا کی راہ میں مجاہدت صرف اسلحہ جاتی جنگ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں جدوجہد بھی اسی معنی میں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ آج خدا کی راہ میں جہاد کا عینی مصداق اسلامی خطے میں خاص طور پر مغربی ایشیا کے حساس اور اسٹریٹجک علاقے میں استکبار کی سازشوں کی شناخت اور مکمل پلاننگ کے ساتھ اس سے مقابلہ ہے اور اس مقابلے کو حملے اور دفاع پر مشتمل ہونا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ سو سالوں کے دوران خطے میں استکبار کی سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ اس خطے میں استکبار کی سازشوں کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس میں اضافہ ہوگیا تاکہ اس کے بعد کسی اور ملک میں اس طرح کا تجربہ نہ ہو۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تسلط پسندانہ نظام اور ان سب کے اوپر امریکا کو دشمن کے مفہوم کا حقیقی مصداق اور مظہر کامل قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکا کسی بھی انسانی اقدار سے بہرہ مند نہیں ہوا اور بغیر کسی جھجھک کے اور خوبصورت الفاظ اور مسکراہٹ کا استعمال کئے بغیر وہ خباثت اور ظلم و ستم کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی اختلافات کو ہوا دینے کی سازش پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومتوں کے درمیان اور اس سے بھی زیادہ خطرناک مسئلہ یعنی اقوام کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا استکبار کی سازش کا حصہ ہے۔
آپ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ موجودہ دور میں ملتوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لئے شیعہ اور سنی عناوین کا استعمال کیا جاتا ہے اور برطانیہ کو اختلافات ایجاد کرنے کا ماہر اور امریکہ کو اس کا شاگرد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ظالم، جابر اور توہین کرنے والے انتہا پسند تکفیری گروہ کہ امریکیوں نے جنہیں بنانے کا دعوی کیا ہے آج ملتوں میں موجود مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کا سب سے موثر ہتھکنڈہ ہیں کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض سادہ لوح مسلمان بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے انکی سازشوں کے فریب میں آگئے ہیں اور اب دشمن کے منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آج جو کچھ عراق، شام، یمن اور اس خطے کے دوسرے ممالک میں ہورہا ہے اور اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو مذہبی جنگ کا نام دیا جائے، یہ کسی بھی صورت مذہبی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی جنگ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج ہمارا سب سے اہم وظیفہ اختلافات کو ختم کرنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اپنے اکثر ہمسایہ ممالک سے دوستانہ رابطے ہیں البتہ بعض ممالک ہم سے اختلافات رکھتے ہیں اور بہانے بازی اور خباثت انجام دیتے ہیں لیکن ایران نے اپنے پڑوسی ممالک اور اسلامی حکومتوں اور خاص کر خطے کے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات پر بنیاد رکھی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے رویے کی بنیاد ان اصولوں پر ہے کہ جن پر پابندی کرنے کی وجہ سے امام خمینی اسلامی انقلاب کو کامیاب بنانے اور اسے ثبات کے مرحلے تک پہچانے میں کامیاب ہوئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اشداء علی الکفار و رحماء بینھم کو اسلامی نظام کی ایک مستحکم بنیاد اور اصول قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم امام بزرگوار کی تعلیمات کی بنا پر اور اسلامی جمہوریہ کے مسلم راستے کی وجہ سے استکبار سے کبھی جنگ بندی نہیں کرسکتے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں سے ہماری دوستی اور محبت ہمیشہ رہے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ عراق کی تقسیم اور اگر ممکن ہو تو شام کی تقسیم امریکہ کا اصلی ہدف ہے لیکن خطے کے ممالک اور عراق و شام کی ارضی سالمیت ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کی جانب سے تمام مظلومین اور خاص طور پر بحرین اور یمن کے مظلوم عوام کے دفاع پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض بے اساس دعووں کے برخلاف ہم ان ملکوں میں مداخلت نہیں کر رہے لیکن ہم مظلوموں کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اس حصے کے آخر میں فرمایا کہ عالم اسلام کے مخلتف ملکوں من جملہ پاکستان اور افغانستان میں بھی ایسے دردناک واقعات سامنے آرہے ہیں اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی بصیرت اور ہوشیاری کے زریعے ان مشکلات کا حل تلاش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں اسلامی ریڈیو ٹیلیویژن یونین کو امریکی اور صیہونی میڈیا کی پیچیدہ مافیا اور خطرناک سلطنت سے مقابلے کا اہم ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس تحریک کو تقیت پہچانے اور اسے توسیع دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا کہ اسکتبار کی رجز خوانی کے باوجود اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ اسلام کی عزت اور قدرت مجاہد مردوں عورتوں اور جوانوں کی موجودگی کی وجہ سے واضح اور روشن ہو چکی ہے اور خطے کا مستقبل مسلمان ملتوں سے تعلق رکھتا ہے۔