جماران کے مطابق : آیت اللہ محسن قمی نے کہا: ہر چیز سےپہلے یہ نکتہ مدنظر رکھنا چاہیئے کہ عالم اسلام میں اسلامی بیداری کوئی نیا حادثہ و واقعہ نہیں ہے جو گذشتہ 4یا 5 سال میں شروع ہوا ہو ، اسلامی بیداری کا نیادورکاسرآغاز کم سے کم 150سال سابقہ رکھتاہے ۔ بے شک اس لمبے عرصہ میں بہت سے بڑ ے علما اور متفکران کاکردار تھا۔ شاید ہم یہ دعویٰ کرسکیں کہ اس آخری دور کے فاصلہ میں حضرت امام خمینی (رح) ان متفکرین میں سب سے زیادہ تاثیرگزارشخص تھے جنھوں نے بہت زیادہ اس کو تیزی اور توانائی بخشی ۔
انقلابی ثقافتی سپریم کونسل کے رکن نے اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ حالات میں کیا اسلامی بیداری کامیابی کے ہمراہ تھی یانہیں؟ کہا: ہمیں سب سے پہلے یہ طے کرناچاہیئے کہ اسلامی بیداری کی ہم کیا تعریف کرتےہیں؛ کیا ہمارا تصوراسلامی بیداری سے، طاقت حاصل کرنے کی ایک سیاسی تحریک ہے؟ اس تعریف کے تحت، اگر اسلامی بیداری کی تحریک طاقت کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو اس بناپر ہمیں یہ کہناچاہیئے کہ اسلامی بیداری کو شکست ہوئی ہے ۔لیکن اگر ہم اسلامی بیداری کوگذشتہ 150 سالوں میں ایک فکری ،ثقافتی اور اجتماعی تحریک سمجھیں تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اسلامی بیداری کو گزشتہ چند سال میں مزید تیزی اور تقویت ملی ہے ۔ اگر چہ اسلامی بیداری کی تحریک اور عوامی انقلاب،مخلتف ممالک میں سیاسی طاقت تک پہنچنے میں ناکام ہوا ہے ، لیکن عوامی اور فکری تحریک جسے اسلامی بیداری نے ایک نئی شکل و صورت میں بخشی،عالم اسلام میں اجتماعی حالات کو گہری تبدیلیوں اوربحرانی حالات سے دُچارکی ہے ۔
انھوں نے مزید کہا: امام (رح) نے ابتدائی دنوں میں ہی فرمایا تھا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا انقلاب پوری دنیا برآمد کریں ۔یقیناً اس کے معنی یہ نہیں تھے کہ ہم چاہتے تھے کہ دوسر ے ممالک میں لشکر کشی اور حملہ کریں ۔ انقلاب تو ہر حالت برآمد ہوتاہے کیوں کہ انسانوں کی فطرت سے ہم آہنگ اوریکسوہے؛ اسی بناپر صہیونیستی حکومت،عالمی سامراج،بے عدالتی اور ظالم وقابض نظام کے ساتھ مقابلہ و جہاد کی سیاست کبھی بھی معطل نہیں ہوئی ۔
حجۃ الاسلام نے آخرمیں کچھ نکات کی یادہانی کی: حضرت امام (رح) ہمیشہ تاکیدکرتے تھے کہ انسان کوانسان بناچاہیئے،امام(رح)نے کسی قسم کاکوئی مدرسہ،لائبریری وغیرہ کی تعمیرنہیں کی امام (رح) نے انسان بنایا۔
حضرت امام(رح) مکہ میں حجاج کرام کاقتل عام کے بعدبہت ناراض ومغموم تھے مرحوم حاج احمد آقابتاتے تھے کہ ایک ہفتہ تک امام (رح)بے چین تھے صحیح کھاتے اور نہ صحیح سوپاتےتھے ۔ لیکن کچھ مدت کے بعدامام (رح)نے یہ بحث چھڑی کہ جاکر حج کےمراسم کو انتہائی شان وشوکت سے منعقدکریں ۔ یہ بات یادرکھیں کہ وھابیت ایک مشرک نظام ہے کیوں کہ طاقت کے سامنے سر تعظیم خم کرتی ہے ۔ کیوں کہ یہ لوگ قصوری توحید کے حامل ہونے کے بجائے قبوری توحید رکھتے ہیں ۔کیوں کہ ظلم ،بے عدالتی اور نا انصافی سے مقابلہ کرنے کے بجائے قبورکے ساتھ لڑتےہیں ۔
امام (رح)،مرحوم آیت اللہ بروجردی اورمرحوم آیت اللہ خوانساری کے شاگرد تھے ۔آیت اللہ بروجردی منجملہ ان علمامیں سےتھےجن کانظریہ تھاغیبت کے زمانہ میں نماز جمعہ قائم کرنا شرعی نہیں ۔ لیکن آیت اللہ خوانساری فرماتے تھے کہ نماز جمعہ دورغیبت میں پڑھنا واجب ہے ۔ان افکار کے ٹکـراؤسے امام (رح) بنیں ہیں ۔بہرحال ہمار ے لئے مختلف افکار سے آشنائی اور ان کے بار ے میں جاننا ضروری ہے ۔یہ مسئلہ انسانوں کی شخصیت کوبناتاہے ۔