آیت اللہ محسن اراکی اسلام، مذہبی انتہاپسندی کا مخالف نامی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے تاجکستان تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے بدھ کے روز اپنے ایک مقالے میں تاجکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ افراد سے اظہار ہمدردی کرنے کے ساتھ ساتھ تکفیری دہشتگردی سے مقابلے کے طریقے پر گفتگو کی جس کا مکمل متن درج ذیل ہے۔
بسمہ تعالی
تکفیری دہشتگردی سے مقابلے کے طریقے
تکفیری دہشتگردی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس نے دنیا کے امن و امان کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ تکفیری دہشتگردی کے افکار ونظریات اور بعض اسلامی ممالک میں استکباری طاقتوں کی جانب سے اس سے سوء استفادہ کرکے اسلامی ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور انہیں کمزور کرنے کی غرض سے ان تکفیری گروہوں کی مادی اور معنوی مدد کا سلسلہ جاری ہے۔
تکفیری دہشتگردی کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے کہ جو بعض خاص ممالک کی سرحدوں تک محدود ہو، یہ خطرہ ان تمام ممالک باالخصوص ان ممالک کو بھی بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لے گا کہ جو اس کی مادی اور معنوی مدد کر رہے ہیں، جیسا کہ آج ہم اس خطرے کو بعض ممالک من جملہ فرانس، مصر، سعودی عرب وغیرہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بنا بر ایں ضروری ہے کہ بشریت کے خیر خواہ افراد اور ملتیں اور صالح افراد اس خطرے سے مقابلے کے لئے آگے بڑھیں اور سنجیدگی کے ساتھ اس کینسر سے بھی زیادہ موذی مرض سے نجات حاصل کرنے کی چارہ جوئی کریں۔
اس ضمن میں تاجکستان کی جانب سے تکفیری دہشتگردی سے مقابلے کے عنوان سے کانفرنس کے انعقاد پر اس ملک کے رہنماوں اور خاص طور پر صدر تاجکستان کی کامیابی اور سربلندی کے لئے دعا گو ہیں۔
یہ مقالہ جو پیش نظر ہے اس کا عنوان تکفیری دہشتگردی سے مقابلے کے طریقے ہے جو ایک مقدمے اور ساتھ عناوین پر مشتمل ہے۔
مقدمہ
اس مقدمے میں دو مطالب پر بحث کی جائے گی:
پہلا مطلب: اسلامی شریعت میں تمام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت کو واجب قرار دیا جانا :
اسلام کی نظر میں تمام انسانوں کی جان اور مال کو مکمل تحفظ حاصل ہے مگر یہ کہ کوئی شخص خود دوسرے انسانوں کی جان اور مال کے لئے نقصاندہ ثابت ہو۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
«مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا» (سوره مائده/32) اور اسی طرح فرماتا ہے: «أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ» (سوره هود/85) اور : «وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ » (سوره بقره/205-206)
پیغمبر ختمی مرتبت کی احادیث میں بھی تواتر کے ساتھ اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ لن یزال المؤمن فی فسحة من دینه مالم یصب دماً حراماً» (صحیح بخاری، ج 4، ص188 اور ایک اور حدیث متواتر میں بھی ذکر ہوا ہے کہ : «المسلم من مسلم المسملمون من لسانه و یده» (صحیح مسلم، ج 1، ص 48)
ان آیات و روایات کی روشنی میں دین اسلام عدل و انصاف اور تمام انسانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے آیا ہے اور صرف اس شخص سے جنگ و جدل کرتا ہے کہ جو لوگوں سے جنگ و جدل کرتا ہے اور لوگوں کی جان و مال پر ہاتھ ڈالتا ہے۔
دوسرا مطلب: مسلمان کا مسلمان سے جنگ کرنا حرام ہے:
آیات و روایات میں فراوانی کے ساتھ ملتا ہے کہ مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کا خون بہانا حرام ہے۔
خداوند متعال فرماتا ہے:
«وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا» (سورة نساء/93)
نیز پیغمبر ختمی مرتبت کی ایک صحیح حدیث میں بھی ذکر ہوا ہے کہ:
«لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم و قاب بعض» (صحیح بخاری، ج 4، ص 186)
اس کے علاوہ ایک اور صحیح حدیث میں آیا ہے: عن النبیa «لا یحل دم امرئٍ مسلم یشهد ان لا اله الا الله» (نیز سند احمد حدیث 485) «و أنّی رسول الله إلاّ باحدی ثلاث: النفس بالنفس، والثیب الزانی، و المارق الدین التارک الجماعة» (صحیح بخاری، ج 4، ص 188)
اس بنا پر ایسے مسلمان کا خون بہانا خدا کے نزدیک کریہہ ترین گناہ ہے کہ جو اپنی زبان پر شہادتین جاری کرے اور دینی کے بنیادی مسائل کا منکر بھی نہ ہو۔
ان آیات و روایات کے مطابق کسی ایسے مسلمان کو کافر قرار دینا جائز نہیں ہے کہ جو شہادتین کہے اور کسی ایسے انسان کا خون بہانا بھی جائز نہیں کہ جس نے کسی جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو نہ ہی اس کی گردن پر کسی قسم کا قصاص وغیرہ نہ ہو۔
لہذا تکفیریت اور کسی بھی مسلمان کو کافر قرار دیا جانا اسلام میں منع ہے اور معاشرے میں بدامنی پھیلانا چاہے وہ کسی بھی بہانے سے ہو سوائے ان افراد کے خلاف کے جن کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی پھیل رہی ہو فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔
پس اس مقدمے کو سامنےرکھتے ہوئے اب دہشتگردی اور تکفیریت سے مقابلے کے سات مختلف راہ حال آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
1: تکفیریت اور دہشتگردی سے مقابلے کا سب سے پہلا اصلی عقائد، منابع، ان علما کی مدد سے کہ جو دینی منابع کی صحیح پہچان رکھتے ہیں اور سرکاری اداروں، میڈیا، مفکرین اور دانشور حضرات کی مدد سے اسلام کی صحیح شناخت کروانا ہے۔
لہذا اگر مثلث کے تین کونے جس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ علما کی جانب سے حقیقی اسلام کو بیان کرنا، سرکاری حمایت اور اہل فرہنگ وہنر کی مدد اگر ایک ساتھ مل جائے تو صحیح، حقیقی، مبرا اور منزہ اسلام کو جاہلوں اور ناشناس افراد کی تحریف کے بغیر اپنی جوان نسل اور عام افراد کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح اسلام کی پہچان رکھنے کا جھوٹا دعوی کرنے والوں اور عوام کے دین اور ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والاں کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے اور اس طرح تکفیری اور دہشتگردی کی پرورش کرنے کہ جو تحریف اور تزویر پر مبنی ہے اور انکے لئے زمہینہ ہموار کرنے کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔
2: دینی مراکز، مسجدوں اور منبروں کو نا اہل افراد سے نجات دلانا
تکفیریت اور دہشتگردی میں توسیع کا ایک اہم پہلو مسجدوں، منبروں اور دینی مراکز پر نا اہل افراد کا قبضہ ہے۔ اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ مساجد کے پیش اماموں، دینی علما، نماز جمعہ کے خطیبوں اور مدارس میں دینی تعلیم دینے والے اساتذہ کو دینی قواعد و ضوابط کو نظر میں رکھتے ہوئے انتخاب کیا جائے تاکہ ان مراکز میں شدت پسند عناصر کو جگہ نہ مل سکے۔
3: با عمل علماء اور طالبعلوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایسے دینی مراکز، یونیورسٹیوں اور حوزہ ہائے علمیہ کا انتخاب کہ جو صحیح علم اور تقوائے اسلامی سے آراستہ ہوں۔
آج تکفیریت اور دہشتگردی و انتہاپسندی کی پیدائش کے اہم مراکز علوم دین حاصل کرنے والے طالبعلموں کے دینی مدارس اور دینی مراکز ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب، مصر، پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کے بہت سارے مدارس ایسے ہیں کہ جو ان تکفیری اور انتہا پسند عناصر کے اختیار میں ہیں۔
اس حقیقت سے صراحت کے ساتھ پردہ اٹھانا چاہئے کہ ان انتہاپسند گروہوں کے نظریات کی اصل اساس وہابی فکر ہے۔ لہذا وہ ممالک کہ جو ان تفکرات و نظریات کی پیدائش کا مرکز ہیں انہیں ایک طرف تو اس طرز تفکر پر تجدید نظر کرنا چاہئے اور دوسری طرف انہیں اسلام کی حقیقی فکر اور اسکے حقیقی نظریات کی ترویج کے لئے مناسب عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ تکفیریت اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا جاسکے۔
4: اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ تکفیریت اور دہشتگردی کو بعض ممالک خاص طور پر دنیا کی بڑی جاسوس آرگنائزیشنز سی آئی اے، موساد اور ایم آئی سکس کی حمایت حاصل ہے، اور اسکے علاوہ بعض عرب ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں بھی ان گروہوں کو بنانے، انکی حمایت کرنے اور انکی مادی اور معنوی مدد کرنے میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
آج یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ آرگنائزیشنز اور حکومتیں نیز خطے کے بعض ہمسایہ ممالک شام، عراق اور یمن میں ان گروہوں کی بہت زیادہ مدد کررہی ہیں، بنا بر ایں تکفیریت اور دہشتگردی کا راستہ روکنے کے لئے ایک اہم اقدام یہ ہے کہ عالمی ادارے اور حکومتیں ان ممالک پر دبائو ڈالیں تاکہ وہ ان گرہوں کی کھل کر اور خفیہ طور پر مدد کرنے سے باز آجائیں۔
5: ایسے مالی ذرائع بھی معین اور مشخص ہیں کہ جن کے ذریعے ان تکفیری اور انتہا پسند گروہوں کی مدد کی جاتی ہے، ان مالی ذرائع کو تلاش کرنا کہ جن کے ذریعے ان گرہوں کو رقم کی ترسیل کی جاتی ہے بہت مشکل کام نہیں ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ان مالی ذرایع کی شناسائی کی جائے اور ان گروہوں کو رقم کی ترسیل کے ذرائع کا پتہ لگا کر اسکا سدباب کیا جائے۔
6: اس سلسلے میں ایک اور اہم اور ضروری کام یہ کہ وہ ممالک کہ جو تکفیری گروہوں کی مدد اور حمایت کرنے جیسے مسائل سے پاک ہیں انہیں ساتھ ملا کر ایک الآئنس تشکیل دی جائے تاکہ مشترکہ پلاننگ اور باہمی اتحاد و اتفاق کے ذریعے تکفیریت اور دہشتگردی کے مقابلے کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔
7: وہ چیز جو تکفیریت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں معاون و مددگار چابت ہو سکتی ہے وہ عظیم اسلامی وحدت اور اسلامی فرقوں کے درمیان باہمی اتفاق و اتحاد کا قیام ہے۔
کئی سالوں سے عالم اسلام کے مصلح افراد اسلام کی امت واحدہ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ سید جمال الدین افغانی{ اسد آبادی}، محمد عبدہ، علامہ اقبال، امام موسی صدر، شیخ شلتوت، امام خمینی، آیت اللہ العظمی بروجردی، امام خامنہ ای اور عالم اسلام کے دوسرے بزرگ مذہبی اور سیاسی رہنماوں نے اتحاد و وحدت کی تاکید کی ہے، اور اسلامی فرقوں کے درمیان ہم دلی اور بھائی چارے نیز اسلامی فرقوں کی باہمی ہماہنگی کو دشمنوں کے نفوذ، انحراف اور اسلامی معاشرے اور اسلامی مراکز میں انکے نفوذ سے بچنے کا واحد راتہ قرار دیا ہے۔
آج امت اسلامی کو اسلامی فرقوں کی باہمی ہماہنگی اور وحدت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ ایک اسلامی امت واحدہ کی تشکیل عمل میں آسکے۔ مقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس سال عید کی نامز کے خطبوں میں وحدت کو اسلامی معاشرے کے دردوں کی دوا اور مسلمانوں کے مسائل کا واحد راہ حل قرار دیا ہے۔ اس اہم کام کا آغاز ہم اپنے خطے سے کر سکتے ہیں۔ اگر ایران، وسطی ایشیا کے ممالک خاص طور پر افغانستان، تاجکستان، پاکستان، ترکی، اور عراق سمیت دوسرے ممالک ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور خطے میں اقتصادی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی ہماہنگی اور وحدت کا آغاز کریں تو یہ عظیم اتحاد اور طاقت عالمی سطح پر بھی بھی زیادہ موثر ثابت ہو گا اور تکفیرت اور انتہاپسندی کے سدباب میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ اور ایک ایسے اسلامی اتحاد اور امت واحدہ کی تشکیل کا زمینہ فراہم کرے گا کہ جو عالم اسلام کے رہمناوں اور عظیم مفکرین کا اصلی ہدف تھا اور قرآن و سنت کی جانب سے جن مسائل، وظایف اور واجبات کو ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے انکی ادائیگی کا زمینہ فراہم کرے گا۔
خداوند متعال فرماتا ہے: «وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا» (سوره بقره/143) اور : «إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» (سوره انبیاء/92) اور فرماتا ہے: «وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ» (سوره آل عمران/103) اور: «وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ» (سوره روم/31-32)
صدق الله العلی العظیم والسلام علیکم و رحمة الله
http://www.taghribnews.com/ur/