قرآن کریم ایک ایسا دستر خوان ہے جسے خداوند عالم نے پیغمبر اکرم ﷺ کے ذریعہ انسانوں کے لئے بچھایا ہے تا کہ سارے انسان اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کریں "هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ " (سورہ جمعہ آیت 2) خداوند عالم وہ ذات ہے جس نے تم ہی میں سے تمہارے درمیان ایک رسول کو مبعوث کیا ہے تا کہ یہ رسول خدا کی طرف سے ان چند امور کو انجام دے يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ لوگوں کے لئے آیات الہی کی تلاوت کرے ۔قرآن آیات الہی ہے اور بعثت کا مقصد اس عظیم کتاب کا لانا ہے اور اس عظیم کتاب کی تلاوت کرنا اور اللہ کی عظیم آیات کی تلاوت کرنا ہے۔اگر چہ سارا عالم حق تعالیٰ کی نشانیاں ہیں،لیکن قرآن کریم پوری خلقت اور تمام چیزوں کا خلاصہ ہے کہ مبعث میں انجام پانا چاہیئے ،یہ کتاب اور یہ دسترخوان پورے مشرق اور مغرب میں وحی کے زمانہ سے لیکر قیامت تک کے لئے بچھا ہوا ہے۔اور یہ ایسی کتاب ہے کہ سارے انسان عوام میں سے ہوں یا خواص ،عالم ہوں یا جاہل ،فلسفی ہوں یا عارف،فقیہ ہوں یا غیر فقیہ سارے کے سارے اس سے استفادہ کرتے ہیں یعنی ایسی کتاب ہے کہ نازل ہونے کے باوجود مرحلہ غیب سے مرحلہ شہود تک سب کے استفادہ کے لئے ہم عالم طبیعت میں رہنے والوں سے پہلے ہے،اس مقام ارفع و اعلیٰ سے نازل ہونے کے باوجود سب کے استفادہ کے لئے ہے ،اس کے باوجود اس میں مسائل ہیں کہ عالم ،جاہل ،عوام اور غیر عوام ،عارف،فلسفی،فقہ سارے کے سارے اس سے استفادہ کرتے ہیں اور اس میں کچھ مسائل ہیں جو اکابر علما سے مختص ہیں۔بڑے بڑے فلسفیوں اور عرفا سے مخصوص ہے اور انبیاء اور اولیا سے مخصوص ہے۔اس کے بعض مسائل جن کا اللہ تعالیٰ کے اولیا کے سوا کوئی ادراک نہیں کر سکتا ،مگر اس تفسیر کے ذریعہ جو اولیا اللہ سے منقول ہو وہ بھی انسان میں موجود استعداد کے مطابق قابل استفادہ ہو سکتی ہے ایسے ایسے مسائل ہیں جس سے بڑے بڑے اسلامی عرفا ان سے استفادہ کرتے ہیں اور اسلامی فلاسفہ اور حکما استفادہ کرتے ہیں ،اکابر فقہا استفادہ کرتے ہیں یہ سب کے لئے عمومی دستر خوان ہے اور اس سے علما ،فقہا ،فلاسفہ اور حکما اور اولیا اللہ نیز عوام و خاص کا گروہ استفادہ کرتا ہے سیاسی،سماجی،ثقافتی،فوجی اور غیر فوجی سارے مسائل اس کتاب میں موجود ہیں ۔اس مقدس کتاب کے نزول اور پیغمبر اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ یہ کتاب سب کے اختیار میں ہو اور ہر کوئی اپنی اپنی فکری اور ذہنی استعداد اور وجودی وسعت کے لحاظ سے اس سے استفادہ کرے ۔لیکن افسوس کے ہم اور انسان اور علماء اسلام جیسا استفاہ کرنا چاہیئے اس طرح استفادہ نہیں کر سکے ہیں سب کو اپنی اپنی فکریں استعمال کرنی چاہیئے ،اور اپنے ذہنوں کو اس عظیم کتاب کی طرف متوجہ کریں تا کہ اس کتاب سے جیسی کہ ہے اور جس طرح ہم استفادہ کرسکتے ہیں اس طرح استفادہ کریں ۔ سب استفادہ کریں اور اس مقدس اور جاویدانی کتاب سے فیض حاصل کریں ۔قرآن ہر طبقہ کے استفادہ کے لئے آیا ہے ،ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق استفادہ کرے۔البتہ بعض آیات ہیں کہ رسول خدا ﷺ اور آپ کے شاگردوں کے سوا کوئی انھیں سمجھ نہیں سکتا ۔
اور ہم انہی کے وسیلہ سے سمجھتے ہیں ،بہت ساری آیات سب کے اختیار میں ہیں کے سارے لوگ اپنی اپنی فکروں کا استعمال کریں اور اپنے ذہنوں کو اس کے معانی کے سمجھنے میں لگائیں اور زندگی کے مسائل اس دنیاوی زندگی اور اس اخروی زندگی کے مسائل کو اس مقدس کتاب سے استفادہ کریں۔
پس بعثت کا ایک مقصد یہ ہے کہ قرآن غیب میں رہا ہے اور غیبی صورتوں میں رہا ہے اور خدا کے علم میں تھا اور غیب الغیوب میں تھا ،اس عظیم موجود کے ذریعہ جس نے کافی مجاہدتوں اور جانفشانیوں اور فطرت حقیقی اور فطرت توحیدی پر واسطہ ہونے کے ذریعہ اور سارے مسائل غیب سے رابطہ رکھتے ہیں اس رابطہ کے ذریعہ جو غیب سے رکھتا ہے ۔اس کتاب مقدس کو غیب کے مرتبہ سے نیچے اتارا ہے،بلکہ اس میں بہت سارے نچلے مرتبہ ہیں یہاں تک کہ "شہادت" یعنی ظہور کےمرحلہ تک پہونچ گئی ہے اور الفاظ کی شکل میں ظاہر ہوئی اور ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی کا اپنے فہم کے مطابق ادراک کر سکتے ہیں ،بعثت کا مقصد اس دسترخوان کا عمومی بنانا اور بچھانا ہے انسانوں کے درمیان وحی کے نزول سے آخری دور تک ۔یہ کتاب آسمانی کا ایک مقصد ہے اور بعثت کا ایک ہدف ہے۔ "بعثت علیکم" ایسے رسول کو مبعوث کیا جو آیتوں کی تم پر تلاوت کرتا ہے اور آیات الہی کی تلاوت کرتا ہے۔" يزَكِّيهِمْ وَ يعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ" وہ آیات الہی کی تلاوت کرتا ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے یعنی اسی کتاب اور حکمت کی تعلیم جو اسی کتاب سے ہے بعثت کا مقصد وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں پر تلاوت قرآن کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے نفوس کا تزکیہ کریں اور نفوس پاک و پاکیزہ ہوجائیں ان ظلمتوں جو ان کے نفوس میں موجود ہیں تا کہ پاک و صاف ہونے کے بعد ان کے اذیان اور ان کی ارواح کتاب اور حکمت کو سمجھنے کے قابل ہوجائیں کتاب و حکمت کا ادراک کرنے کے لئے مقصد تزکیہ ہے ہر نفس اس غیبی نور کو جو غیب سے نیچے آکر شہود کی منزل کو پہونچا ہے ۔اس کا ادراک نہیں کر سکتا جب تک تزکیہ نہ ہوگا کتاب و حکمت کی تعلیم ممکن نہ ہوگی ،پہلے نفوس کا تمام آلودگیوں سے تزکیہ ہو کہ سب سے بڑی آلودگی انسان کے نفس کے آلودگی اور اس کی نفسانی خواہشات ہیں ۔
جب تک انسان اپنے حجاب میں ہے وہ اس قرآن کو جو خود اس کے بقول نور ہے اور جو لوگ حجاب میں ہیں اور بہت سارے حجابوں کی آڑ میں ہیں اس کتاب کا ادراک نہیں کرسکتا ،گمان کرتا ہوں کہ کرسکتا ہے ۔نہیں کرسکتا جب تک کہ انسان بہت ہی تاریک حجاب سے باہر نہ آئے اور جب تک نفسانی خواہشات کا اسیر ہے ،خود پسندی کا قیدی ہے اور جب ان چیزوں میں گرفتار ہے ۔جو خود اس کے باطن سے وجود میں آتی ہیں ،ان ظلمتوں سے جو بعض بعض سے زیادہ ہیں ۔ظلمتوں کے پردہ میں رہ کر اپنے دل میں نور الہی کے منعکس کرنے کی لیاقت پیدا نہیں کرسکتا جو لوگ قرآں اور اس کے مفاھیم اور معانی کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس طرح ہو کہ جتنا پڑھتے جائیں بلند ہوتا جائے اور مبداء نور اور اعلیٰ سر چشمہ سے نزدیک سے نزدیک ہوتا جائے گا۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب پردے ہٹ جائیں اور "تم خود بھی خودی کے حجاب کو" درمیان سے اٹھادو ،جہاں تک تمہارے لئے ممکن ہے اس نور کو اس طرح جیسا کہ ہے اور انسان اس کے ادراک کے لائق ہے،ادراک کرو پس ایک مقصد یہ ہے تعلیم و تزکیہ کے بعد کتاب اور حکمت ہو جائے۔( صحیفہ امام ،ج14، ص386)۔