۱۹۷۹سے پہلے ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت تھی جو کہ اڑھائی سو سالہ موروثی سیاسی نظام تھا۔ جس میں سوائے شاہ کے وزیروں، مشیروں اور رشتہ داروں کے کسی عام شہری کو نہ ہی سیاسی مداخلت کا حق دیا گیا تھا نہ ہی ایرانی قوم کی فلاح و بہبود ، معاشی اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے حکمرانوں نے کوئی پالیسی مرتب کرنے کی کوشش ہی کی تھی۔
اسی وجہ سے غربت اور سہولیات کے فقدان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایرانی دیہی علاقوں کے رہائشیوں نے شہروں کا رخ کرنا شروع کیا جس سے شہروں کی آبادی میں تو ریکارڈ اضافہ ہوا مگر وسائل کی فراہمی کی جانب حکومتی اداروںنے دھیان نہ دیا گیا اور شہروں میں بھی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہوگیا۔دیہی علاقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کے نتیجے میں ایرانی زراعت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ۔الغرض عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا تمام ملکی وسائل بری طرح سے ضائع ہو رہے تھے یا ایک خاص حکومتی طبقہ کے زیر استعمال تھے جو شاہ کے وفادار شمار ہوتے تھے۔
رضا شاہ اور اس کے حواری حکومتی اور ملکی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کو بغاوت سمجھتے اور آمرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں بند کرنے کے ساتھ ساتھ سخت سزاوٗں سے نوازا جاتا۔ پہلوی اور اس کے سیاسی ہم نوا مغرب کے دلدادہ اور چاپلوس بھی تھے یہی وجہ ہے کہ میڈیا پر پہلوی کے کئی بیانات ملتے ہیں جن میں اس نے اپنے اقتدار کو کبھی تو سی آئی اے کے مرہون منت قرار دیا تو کبھی تاج برطانیہ اور امریکہ بہادر کی تعریف اور استعمار سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان حالات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایران رضا چاہ پہلوی کے دور بادشاہت میں نہ صرف اندرونی طور پر غیر مستحکم ہو شکا تھا بلکہ ایران کی خارجہ پالیسی پر امریکہ اور اس کے حواریوں کی مکمل اجارہ داری تھی۔
ان نا مساعد حالات کو دیکھتے ہوئے ۱۱ فروری ۱۹۷۹ کو امام خمینی ؒ نے مغرب نواز ایرانی شاہ کا تختہ الٹ دیااور عوام کے استصواب رائے کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی۔ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ہر میدان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں خواہ معاشرتی تبدیلیوں کی بات ہو یا اقتصادی بہتری کی بات کی جائے یا بات فنون لطیفہ کی ہو یا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیران کن ترقی کرنے کی۔ ایران نے ہر میدان میں کامیابی کے ایسے ابواب مرتب کیے ہیں کہ جن پر جیسے ہی نظر ڈالی جائے عقل دنگ رہ جا تی ہے ۔
اسلامی انقلاب کے ایرانی اقوام کے لیے ثمرات دیکھتے ہوئے اور ایرانی قوم کی ظلم کے خلاف آوازاٹھانے کی ہی وجہ سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بھی مظلومین نے آمر وقت کو للکارنے کی جراٰت کی ہے ۔ مغربی استعمار اور ان کا زر خرید میڈیا چاہے لاکھ سٹپٹائے اور بارہا دعوے کرے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے عوام جمہوریت کے داعی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ان علاقوں کے اعوام نے امام عالی مقامؑ کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے اور انقلاب اسلامی کے مرہون منت مظبوط ایران کو دیکھتے ہوئے بالآخر ظلم کے خلاف قیام کر کے یہ ثابت کر دیا ہےکہ ظالم کو اس کے گناہوں کا دردناک عذاب اسی دنیا میں مل کر رہے گا۔
یہ امام خمینیؒ کی کرشمہ ساز شخصیت ہی تھی کہ جس نے نہ صرف ایران کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑی بلکہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی بھی پیشین گوئیاں کیں جو ان کی رحلت کے بعد درجہ اتم پوری ہوتی چلی گئیں۔ یہ امام خمینیؒ کی ہی پیش گوئی تھی کہ سوویت یونین بہت جلد پارہ پارہ ہو جائے گا اور دنیا نے دیکھا کہ خود کو سپر پاور سمجھنے والا ملک جب ٹوٹنے پر آیا تو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بکھرتا چلا گیا۔ یہ بصیرت، دانائی اور عملی مجاہد ہونے کی صفت امام خمینی ؒکو اہل بیت اطہار علیہم اسلام سے عشق اور ان کی تعلیمات پر آنکھیں بند کر کے کاربند رہنے کی بدولت حاصل ہوئی خصوصاً امام خمینیؒ نے ظالم کے خلاف قیام کرنے اور حق کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا نواسۂ رسول حضرت امام حسین ؑ سے سیکھا اور اسے عملی زندگی میں استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی تاریخ ریاست کی بنیاد رکھی جو آج ان کی وفات کے بعد بھی امریکہ اور اسے ہواریوں کو کھٹک رہی ہے ۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے لے کر تا حال ایرانی قوم امام خمینی ؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے استعمار کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ یہی نہیں جہاں کہیں مسلمان ریاستوں میں استعمار اور سفلی قوتیں سازشیں کر رہی ہیں ایران نے ہمیشہ مظلومین کی حمایت میں ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی ہے یہی وجہ ہے کہ ایران دنیا میں ظالموں کے خلاف قیام کرنے کے استعارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
امام خمینی ؒ کے زیر قیادت محروم اور مظلوم قوم نے نہ صرف خود کو اندرونی طور پر مستحکم کیا بلکہ ایک آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی عنصر ہی یہ رکھا گیا کہ ایرانی قوم سامراج کے مظالم کے خلاف حق کی آواز بنے گی اور اپنے لیے معاشی اور اقتصادی مواقع خود تشکیل دے گی تا کہ دنیا میں ایک خود مختار اور پر وقار قوم کے طور پر جانی اور پہچانی جائے۔یہی وجہ ہے کہ آج ایرانی قوم اقتصادی پابندیوں کے باوجود باعزت طریقے سے عرب امارات کے ذریعےتمام دنیا سے تجارت کرنے میں مصروف ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد سے عوام کے فلاح و بہبود کے پروگراموں اور عوام کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ کی گئی جس کی وجہ سے آج ایران میں زچہ بچہ اموات میں اموات کی شرح انتہائی کم ہوگئی ہے۔ایران میں بجلی، گیس، ٹیلی فون، انٹرنیٹ کی معقول فراہمی، ریلوے کا نظام،دفاعی اداروں کا قیام ، شعبہ طب میں نت نئی ایجادات ، سرکاری سرپرستی میں درسگاہیں اور انڈسٹری کا قیام اس بات کی دلیل ہے کہ ایرانی قوم آج بھی اسی جذبے سے سرشار ہے کہ جس کے تحت ایرانیوں نے اپنے رہبر کبیر حضرت آیت اللہ امام خمینیؒ کی سربراہی میں ظلم کے خلاف قیام کیا اور فتح اور نصرت ان کا مقدر بنی۔
انقلاب اسلامی ایران کے بعد سے ایران تمام دنیا کی توجہ کا مرکز ہی نہیں بنا ہوا بلکہ خود ایران بھی تمام بین الاقوامی معاملات میں حق کا ساتھ دینےمیں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتایہی وجہ ہے کہ مغربی استعماری طاقتیں ایران کے خلاف کھلم کھلا سازشیں کرتی رہتی ہیں ۔اب یہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایران کے خلاف مغربی استعمار کی سازشوں کو ناکام بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔