اب جبکہ امام خمینی رہ کا پیغام عالمی سطح پر عوامی اقدامات میں تبدیل ہو چکا ہے اور انکے نظریات عوامی تحریکوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں امریکہ خود کو انکے مقابلے میں بالکل بے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے۔
اس سال 4 جون (امام خمینی رہ کی برسی) کا دن نئے معانی کا حامل ہے اور گذشتہ سالوں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ گذشتہ تمام سالوں میں صورتحال ایسی تھی کہ 4 جون کے موقع پر پوری دنیا خاص طور پر ایران میں امام خمینی رہ سے عقیدت رکھنے والے لاکھوں افراد یہ محسوس کرتے تھے کہ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز شخصیت کے ساتھ اظہار محبت کی ایک اور فرصت مل گئی ہے۔ یہ محبت خاص طور پر جوانوں اور نوجوانوں کے دلوں میں کہیں زیادہ ہے جنہوں نے حتی امام خمینی رہ کو دیکھا تک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جب امام خمینی رہ سے عقیدت رکھنے والے افراد پر ایک نظر دوڑاتے تو دیکھتے کہ ان میں اکثریت ایسے جوانوں کی ہے جو نہ انقلابی سابقے کی بنیاد پر بلکہ اپنے دل و جان میں گزرنے والے حالات کی وجہ سے اکثر انقلاب اور خط امام خمینی رہ کا پیروکار ہونے کے داعی افراد سے کہیں زیادہ انقلاب کے شیدایی اور امام خمینی رہ کے بیان
خمینی کبیر رہ 4 جون کو ایسے مہمانوں کی میزبانی کریں گے جو نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ مشرق وسطی میں انقلاب برپا کرنے والے اور امام خمینی رہ کی راہ میں جان نچھاور کرنے والے لاکھوں مرد و خواتین کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔
کردہ اصول اور مبانی کے پابند ہیں۔ اس سال امام خمینی رہ سے اظہار محبت و ارادت سے بڑھ کر ہمیں کچھ دیکھنے کو ملے گا۔
ایرانی عوام اس سال ایسے حال میں امام خمینی رہ کے مزار کی جانب رواں دواں ہیں جب مشرق وسطی کے مختلف حصوں میں رہنے والے افراد کی بڑی تعداد امام خمینی رہ کی برسی میں شرکت کرنے اور ان سے اظہار ارادت کرنے کی آرزومند ہے۔ خمینی کبیر رہ 4 جون کو ایسے مہمانوں کی میزبانی کریں گے جو نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ مشرق وسطی میں انقلاب برپا کرنے والے اور امام خمینی رہ کی راہ میں جان نچھاور کرنے والے لاکھوں مرد و خواتین کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔
جس دن امام خمینی رہ نے یہ کہا تھا کہ ایران میں برپا ہونے والا اسلامی انقلاب ایران کی حدود تک باقی نہیں رہے گا بلکہ پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا شاید اکثر افراد یہ سوچتے ہوں کہ انکا یہ جملہ یا تو صرف ایک جوشیلہ نعرہ ہے اور یا پھر امام خمینی رہ ایسے دور کے زمانے کی بات کر رہے ہیں جسکے محقق ہونے کی فی الحال امید نہیں رکھنی چاہئے۔ خاص طور پر امریکی تو اس بات کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اب بھی انہیں یقین نہیں آتا کہ ایسے مرد و خواتین جو کچے گھروں اور مٹی کی گلیوں سے ننگے پاوں اور خالی ہاتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان میں اس قدر طاقت ہو کہ انکے مفادات پر مبنی پیچیدہ اور جدید نیٹ ورکس کو نابود کر دیں اور اسکی حفاظت پر مامور افراد کو اتنی کم مدت میں کہ انہیں اسکا مقابلہ کرنے کی فرصت بھی نہ مل سکے، مسند قدرت سے نیچے اتار پھینکیں گے۔
وہ سوال جسکا جواب امریکیوں کو دینا چاہئے لیکن وہ اسکا جواب دینے سے قاصر ہیں یہ ہے کہ یہ عظیم طاقت اور توانائی کہاں سے آئی ہے؟۔ اس عظیم سیلاب کا منشاء اور منبع جو مشرق وسطی میں انکے تمام مفادات کو بہا لے گیا ہے اور تیزی سے مشرق وسطی سے بھی آگے بڑھتے ہوئے یورپ کے مرکز تک آن پہنچا ہے، کیا ہے؟۔