تحریر: ارشاد حسین ناصر
وہ لوگ یقیناً خوش قسمت اور باعث فخر و اعزاز ہیں جنہوں نے اس مرد خدا، بت شکن زمان حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی علیہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کا دور دیکھا، ان کے زمانے میں ان کے حامی، ہمدرد، طرفدار، مقلد، معاون، پیرو اور ان کی محبت میں گرفتار رہے، اس خالص عبد خدا سے والہانہ عشق کیا جس کا تقویٰ، پرہیزگاری اور معرفت اسے ہر میدان میں سرخرو کرتا گیا اور وہ گذری صدی کا ایسا ہیرو قرار پایا، جس کی دھوم آج بھی چہار سو پھیلی ہوئی ہے اور دنیا اس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو رہی ہے، لوگ ان کے ہر فرمان کو اپنے لئے واجب العمل سمجھ کر بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق کی مانند نظر آئے، ماؤں نے اپنے جوان دیئے کہ امام خمینی کا انقلاب محفوظ رہے، نو بیاہتا دلہنوں نے اپنے سہاگ اجاڑ دیئے کہ اسلام خالص محمدی کا احیاء قائم رہے، اس انقلاب کی جدوجہد، قیام اور حفاظت کیلئے ان گنت اور لاتعداد فرزندان توحید نے اپنا خون نچھاور کر دیا، انقلاب اسلامی ایران ہزاروں نہیں بلاشبہ لاکھوں قربانیوں کا حاصل ہے۔ اس سوچ کی پہلی کرن سے لیکر انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر یعنی انفجار نور تک اور انقلاب کی چھتیس بہاریں دیکھنے تک، ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ایسی قربانیاں کسی اور انقلاب نے طول تاریخ میں نہیں دیں۔
میں انقلاب برپا کرنے یعنی انقلاب کی جدوجہد میں ساواک اور ظالم شاہی حکومت کے مظالم کے ہاتھوں قربان ہوجانے والے شہدائے انقلاب کی بات نہیں کرتا، نہ ہی ان قربانیوں کا تذکرہ کرتا ہوں جو انقلاب کو دوام بخشنے کیلئے اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں دی گئیں، جس جنگ میں ستاون ممالک ایک طرف تھے اور اکیلا نوزائیدہ ملک ایک طرف تھا۔۔۔ میں ان قربانیوں کا ذکر بھی نہیں کرتا جو مکہ کی جائے امن پر جہاں ایک کیڑے، مکوڑے اور چیونٹی کو مارنے کا بھی کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے، ان خدا کے مہمانوں کا اور کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ خمینی کے حکم پر حج کو اس کی ا صل روح کے ساتھ ادا کرنے کا فریضہ ادا کر رہے تھے، ان عظیم قربانیوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔اور ان قربانیوں کو بھی اس موقع پر نظر انداز کر دیتے ہیں جو معصوم و بے گناہ بوئنگ کے مسافروں کو امریکی میزائل حملے میں شہید ہونے والوں نے دی تھیں، حالانکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔۔۔ میں ان قربانیوں سے بھی صرف نظر کر دیتا ہوں جو صدام ملعون کے کیمیکل حملے میں دنیا کے سامنے دی گئیں، مگر کسی نے اس جارح سفاک، ظالم کی مذمت کرنا گوارا نہ کیا۔۔۔۔
میں ان قربانیوں کو بھی ایک لحظہ کیلئے فراموش کر دیتا ہوں، جو بیت المقدس کی آزادی کی تحریک میں ارض فلسطین، لبنان، شام میں خمینی کے فرزندان پاکباز مجاہدوں نے دی ہیں۔۔۔ میں افغانستان میں عاشقان خمینی کے سینے چھلنی ہونے کے واقعات کو بھی بھول جاتا ہوں۔۔۔ میں شام جو ارض فلسطین کی آزادی اور مزاحمت اسلامی کا اولین مددگار و معاون ملک ہے، کے دفاع کیلئے گذشتہ چار برسوں سے دی جانے والی فرزندان خمینی کی ہزاروں قربانیوں اور اس راہ میں آنے والی ان گنت مشکلات و مصائب کو بھی ایک طرف رکھ چھوڑتا ہوں۔۔۔ میں عراق میں عالمی سازش کاروں کو روکنے کی جدوجہد میں مصروف اور سینکڑوں کی تعداد میں قیمتی ترین فرزندان روح اللہ کی دی جانے والی قربانیوں کو بھی ایک لحظہ کیلئے فراموش کر دیتا ہوں۔۔مگر ۔۔میں یہ نہیں بھول سکتا ۔۔۔ کہ اس انقلاب کے فرزندوں نے اس پاک سرزمین پر بھی بے انتہا قیمتی افراد کو قربان کیا ہے۔۔ اس انقلاب کے تحفظ، ترویج و تبلیغ، پیغام رسانی، اور امام خمینی کے لائے ہوئے انقلاب کی خوشبو پھیلانے کے جرم میں اس پاک وطن میں بھی بہت ہی قیمتی افراد کو کھویا ہے۔۔
میرے لئے ممکن نہیں کہ میں ان ایرانی کیڈٹس کو بھول جاؤں جنہیں راولپنڈی میں دوران ٹریننگ عالمی دہشت گردوں کے گماشتوں نے شہید کر دیا تھا اور ان کے مستقبل کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے۔۔۔ میں کراچی میں پل بناتے انجینئرز کو نہیں بھول سکتا، جنہیں اس ملک کو تعمیر کرنے اور یہاں کی عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے جرم میں لہو رنگ کر دیا گیا۔۔۔ میں ان ایرانی بھائیوں کو ہرگز نہیں بھول سکتا جو اس پاک وطن میں رزق کماتے کبھی ہوٹلز پر اور کبھی اپنی بیکریز پر مارے گئے۔۔۔ میں پشاور قونصلیٹ میں تعینات ان مہمان سفارت کاروں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اپنے فرائض کی بجا آوری میں استعمار کے نمک خواروں کے ہاتھوں شہادت کا اعزاز اپنے نام کیا۔۔۔ میں کس طرح بھول جاؤں اس فرزند انقلاب کو جس نے لاہور میں آکر اہلیان پاکستان بالخصوص ادبی، ثقافتی، علمی و دینی شخصیات سے اس قدر محبتیں سمیٹیں کہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھکتے نہ تھے، پاکستان کی محبت میں اردو زبان کو سیکھا اور بولا، اردو ادب کو فروغ دینے کی جدوجہد کی اور اہلیان پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو اس سطح پر لے گئے جہاں ان کے بعد کوئی نہ لے جاسکا، میری مراد شہید صادق گنجی کہ جنہیں 1992ء میں لاہور کی مال روڈ پر دشمنان خدا نے گولیوں سے بھون دیا، یہ عظیم قربانی بھلا کیسے بھلائی جاسکتی ہے، اس لئے کہ شہید صادق گنجی نے انقلاب کے پیغام کو جس انداز میں اور جن جن حلقوں میں پہنچایا تھا، وہ آج بھی یادگار اور ناقابل فراموش ہے۔۔۔!
میں انقلاب کی اس عظیم قربانی کو اس عظیم موقعہ پر ضرور یاد کروں گا، جو سرزمین اولیاء ملتان میں علم و ہنر بکھیرتے آقائے محمد علی رحیمی اور ان کے ہمراہ سات دیگر پاکستانیوں نے 2فروری 1992ء کے دن ساڑھے گیارہ بجے کے قریب دی۔ آقائے محمد علی رحیمی خانہ فرہنگ ملتان کے ڈائریکٹر جنرل تھے، وہ اس سے قبل چار سال تک ہندوستان میں رہے تھے، پاکستان ایک اسلامی ملک جبکہ ہندوستان ایک کافر ملک تھا، پاکستان ایران کا ہمسایہ اور ہندوستان سے ایسا کوئی رشتہ نہ تھا، آقائے محمد علی رحیمی آقائے صادق گنجی کے بعد واحد ڈائریکٹر جنرل تھے جنہیں کسی پاکستانی سے بات کرتے ہوئے مترجم کی ضرورت نہیں پرتی تھی، وہ اردو خوب جانتے اور بول سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے قاتلوں کو بھی فارسی کلاس میں پڑھایا تھا، وہ ان کے استاد تھے، مگر استعمار کے نمک خواروں نے انہیں دن دیہاڑے خانہ فرہنگ میں گھس کر کلاشنکوفوں سے فائر کر کے شہید کر دیا تھا، ان کے ہمراہ دو اہل سنت بھی شہید ہوئے تھے۔ اس قربانی کا وہ دردناک منظر نہیں بھلایا جاسکتا، جب ان کی اہلیہ خانم مریم رحیمی نے اہل پاکستان کے سوال پر اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں دکھ بھرے انداز میں اظہار کیا؛ میں ایک کافر ملک (ہندوستان) میں چار سال تک رہی، مگر وہاں مجھے کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا، جبکہ ہم ایک دوست ہمسائے اور مسلمان ملک میں جب سے آئے تھے ہر وقت خطرات کا اظہار کیا جاتا تھا، اور بالآخر آج میں یہاں (اس دوست، مسلمان ہمسائے ملک) سے اپنے شوہر کی لاش لے کر جا رہی ہوں، ایسے ہی الفاظ شہید صادق گنجی کی بیوہ کے تھے۔۔۔
یہ انقلاب ایسی قربانیوں سے محفوظ، مضبوط اور ناقابل شکست ہوا ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی اور ان کے جانشینوں نے اس قوم کو شہید پرور بنا دیا ہے، اب یہ موت سے ڈرتے نہیں، موت کا ہر رنگ اور ذائقہ انہوں نے چکھ لیا ہے، ان کو شکست دینا اور ان پر فتح حاصل کرنا ایک دیوانے کا خواب ضرور ہوسکتا ہے، دنیا نے نوزائیدہ انقلاب پر آٹھ سال تک جنگ مسط کرکے بھی دیکھ لیا کہ یہ اسلحہ و طاقت سے شکست نپہیں کھا سکتے اور اب انہیں مذاکرات کے چنگل میں پھنسا کے بھی انہیں اس کا شدید احساس ہو رہا ہوگا کہ انہوں نے وقت کو ضائع کیا ہے اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔ جو لوگ اس طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے تھے کہ ایران کا انقلاب، خمینی کی فکر امریکہ سے مذاکرات کی میز کے نیچے پڑی ردی کی ٹوکری میں چلا گیا، انہیں یقیناً پچھتاوا ہوگا، انہیں اپنی سوچ کو بدلنا پڑے گا کہ انقلاب کی چھتیسویں بہار کا دن آن پہنچا ہے اور خمینی کے وارث اپنے نظریہ و سوچ کے ساتھ انقلاب کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یمن، بحرین، لبنان، عراق، شام اب انقلاب کے ہم آواز و ہم رکاب نظر آ رہے ہیں۔