میں نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ ایام حج کے موقع پر مکہ کے خونریز سانحہ سے پہلے آپ نے جو لوگوں کو پیغام دیا تها اس پر سب حیران ہو رہے تهے کہ آپ نے آیہ { وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہـٰاجِراً اِلَی اﷲِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہُ عَلَی اﷲِ } کو اس سال حج کے پیغام میں انتخاب فرمایا تها۔ سب حیران اور تعجب کر رہے تهے۔ جب وہ ناگوار واقعہ بهی رونما ہوا تب لوگ اس آیت کے انتخاب کا مطلب سمجهے۔ لیکن اس پر سب کی حیرت اور تعجب کی حالت دوگنی ہوگئی۔
میرے عرائض کے اس جملے سے قبل تک تو امام واقعہ کے بارے میں سوال اور سننے کے ساته ساته بیچ بیچ میں تبصرہ بهی فرماتے تهے اور آپ کی توجہ اس بات کی نشانی تهی کہ تازہ خبروں اور معلومات کے مشاہدے کو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن جب آیت اور ان کے پیغام کے بارے میں پوچها اور چاہتا تها اس طرح دبے لفظوں اور کنایہ کے ذریعہ آپ کی کرامت کے بارے میں کچه معلوم ہوجائے تو امام نے اپنی نظریں جهکائیں اور چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ گویا کہ یہ بات نہ تازہ ہے اور نہ کہنے کی۔ گویا نہیں چاہتے تهے کہ نگاہ اور ان کی نظروں سے بهی اس سلسلے میں کوئی بات فاش ہو۔