عراق سے مہاجرت اور کویت کے پناہ دینے سے انکار کرنے کی وجہ سے مزید ایک رات امام بغداد میں رک گئے۔ طے یہ تها کہ اگلی صبح ۹ بجے جمعہ کے دن پیرس جائیں گے۔
جمعرات کو ہم لوگ امام کی خدمت میں حاضر تهے۔ ہم سب حالات کے حوالے سے پریشان اور اداس تهے۔ لیکن امام بہت ہی مطمئن اور سکون کی حالت میں تهے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے، بلکہ امام تو ہم کو بهی حوصلہ دیتے تهے۔ تہران سے بهی خبر ملی تهی کہ لوگ بہت جوش وجذبات میں ہیں اور بہت سے مظاہرے اور احتجاج بهی کئے ہیں وہ سب بهی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں۔
امام کا وہ جملہ مجهے کبهی نہیں بهولے گا جو اس پریشانی اور اضطراب کی حالت میں کہ جس سے ہم سب دوچار تهے مستقبل میں کیا ہوگا، بالکل ہی معلوم نہیں تها۔ امام نے فرمایا: ’’میں عوام کا ممنون اور ان کے سامنے شرمندہ ہوں۔ میں ان عوام کے سامنے حقارت کا احساس کرتا ہوں۔ وہ تو ہماری خاطر اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہیں اور ہم بالکل آرام سے یہاں بیٹهے ہیں‘‘ سچ ہے کہ یہ جملہ کتنا عجیب تها۔ وہ شخص جو ایسے حال میں کہ جہاں منزل کا کوئی پتہ نہیں وطن سے دربدر ہوا اور کبهی ادهر اور کبهی ادهر دربدر ہو رہا ہو۔ بارڈر سے ائیرپورٹ، بصرہ سے بغداد اور بغداد سے معلوم نہیں کس جانب اور کیا واقعات ان کو پیش آئیں گے۔ ان تمام کے باوجود اپنے آپ کو مکمل اطمینان کی حالت میں پا رہا ہو اور اس پر پریشان ہے کہ عوام ان کی خاطر زحمتیں جهیل رہے ہیں۔