عالمی پیمانہ پر روابط کے سلسلہ میں رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی(رح) اور رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مصلحت عامہ اور نظام مملکت کی حیثیت برقرار رکهنے کے بارے میں متعدد بیانات موجود ہیں۔ ذیل میں ہم چند ایک موارد کی جانب اشارہ کریں گے:
امام خمینی(رح) نے 6/8/1363هـ، شمسی (28 اکتوبر 1984ء) کو اس وقت کے وزیر خارجہ اور مربوطہ وزارتخانہ کے دیگر اراکین سے ملاقات کے دوران اس شبہہ کے جواب میں کہ جہاں افراط کے نتیجہ میں صرف اور صرف دوسرے اقوام وملل سے رابطہ برقرار کرنے کی بات ہوتی تهی؛ دوسری حکومتوں اور اقوام وملل سے رابطہ قائم کرنے کے سلسلہ میں فرمایا:
"اس وقت جیسا کہ میں نے سنا ہے، دوسری شیطنت وشرارت انجام دی جارہی ہے اور وہ یہ کہ
کیا ضرورت کہ ہم حکومتوں سے تعلقات برقرار کریں؟ ہم اقوام وملل سے رابطہ بڑهائیں گے اور دیگر حکومتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے! یہ بهی ایک سازش ہے جو ان دنوں رچی جا رہی ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتیں اور امریکہ کا گمان تها کہ ایران اپنے حالیہ انقلاب کی کامیابی کے بعد دیگر تمام تر حکومتوں کے برخلاف استقلال اور آزادی جیسے جدید مسائل کو حاصل کرے، اس کے نتیجہ میں ایک دن اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور جب زوال کا آغاز ہوگا ان کے لئے زندگی بسر کرنا ایک دشوار امر ثابت ہوگا! لیکن ایسا نہ ہوا اور دنیا نے دیکها کہ ایران کے تعلقات دوسرے ممالک سے دن بہ دن بڑهتے چلے گئے۔ اب وہ ایک دوسرے زاویہ سے اپنی سازش کے پودے اُگا رہے کہ ہمیں حکومتوں سے کیا لینا دینا! یہ تو ظالم وجابر حکومتیں ہیں! ہمیں اقوام وملل سے رابطہ برقرار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے!! آپ جان لیں کہ یہ نئی سازش اور نہایت خطرناک اور موذی شرارت وشیطنت ہے۔ ہمیں صدر اسلام کے مانند کہ جب پیغمبر اعظم(ص) مختلف ممالک میں اپنا سفیر بهیجتے تهے تا کہ رابطہ بڑهے، عمل کرنا ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم حکومتوں سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لیں کہ ان سے ہمیں کیا لینا دینا!! یہ عقل وشرع دونوں کے برخلاف ہے۔ ہمیں ہر ایک کے ساته رابطہ برقرار کرنا ہوگا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بعض ایسے ہیں جو اس ضمن میں نہیں آتے جن سے آج ہمارا کوئی ربط بهی نہیں ہے۔
صحیفه امام، ج19، ص:93
دو بزرگ شخصیات کی کچه یادیں کچه باتیں:
"امام بہ روایت دانشوران" نامی کتاب کے صفحہ 214 پر ذکر ہوا ہے کہ فرانس کے صدر مملکت جناب فرانسوا متراں نے آقای رجائی کو ایران کے صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ میں (مرحوم کیومرث صابری) جناب آقای رجائی کی طرف سے جوابیہ لکها کہ جی ہاں! اگرچہ آپ نے مجهے مبارکباد پیش کی لیکن دوسری جانب پیرس کو آپ نے ضد انقلاب کا مرکز ومحور بنا رکهاہے!!
ایک روز میں اپنے آفس میں بیٹها ہوا تها کہ میں نے جناب رجائی کو اس حال میں دیکها کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر تها! کیا ہوا؟!
صدر رجائی نے کہا: امام خمینی نے اس طرح میری توبیخ کی کہ میری پوری زندگی میں کسی نے اس طرح میری سرزنش نہ کی ہوگی!
امام خمینی نے مجه سے فرمایا: کسی نے تمہیں مبارکباد پیش کی ہے۔ تمہیں بهی بحیثیت ایک مسلمان کے، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے تها۔ آخر تم نے ایک ملک کے صدر مملکت سے کس طرح رویہ اپنایا؟!! ہمارا ادب، ہماری تہذیب کہاں چلی گئی؟!!
دوسری یاد دوسری بات:
موجودہ دور کے وزیر خارجہ جناب آغائے ظریف، نیکان ہائی سکول کے اسٹوڈنٹس سے ایک مفصل گفتگو کے دوران رہبر انقلاب کی مدمقابل سے انداز گفتگو کے سلسلہ میں بعض نصیحتیں بیان کرتے ہوئے اضافہ کرتے ہیں: مجهے گزشتہ شب رہبر معظم کے حضور پہنچنے کا شرف ملا۔ دو روز قبل بهی آپ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے فرمایا: منطقی گفتگو کیجئے ... جنگ وجدال لفظی کا شکار مت ہوئیے۔
ایک بار کسی نے کہا تها کہ بسا اوقات جب "ظریف" اور "کیری" [امریکی وزیر خارجه] کی میٹنگ کے دوران، ظریف کی آواز بلند ہوتی ہے تو گارڈز فوراً اپنے سروں کو میٹنگ روم میں داخل کرکے معائنہ کرتے ہیں!
اس کے بعد جب میری رہبر معظم سے ملاقات ہوئی تو آغا نے فرمایا: میٹنگ میں چلاتے کیوں ہو؟ اسی طرح ہنستے مسکراتے اپنی بات بیان کیا کرو۔
آغائے ظریف کی باتوں کا جوان طبقہ بهرپور استقبال کر رہا تها۔ موصوف نے مزید بر آن اشارہ کیا: "وقولا له قولاً لیناً" گفتگو میں یہ ہمارا فارمولہ ہے۔ حد اعتدال اور میانہ روی، اعتماد بہ نفس کا ہی نتیجہ ہیں اور تندروی، شدت پسندی یعنی اعتماد بہ نفس کا فقدان۔
جی ہاں! اسلامی نقطہ نظر سے، یہ ہے خارجہ پالیسی کہ جہاں دشمنوں سے بهی قول لین کی تاکید ہوئی ہے۔ جہاں دوران گفتگو منطق پیشہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر چہ مد مقابل اس کی رعایت نہ بهی کرتا ہو، ہمیں بہرحال اســـــلام کے بیان کردہ انسانی ادب کا پاس ولحاظ رکهنا ہوگا۔
جماران سے اقتباس