ایک دن حاج احمد آقا نے امام کے دفتر سے اہواز کے نامنظم حملوں کی کمیٹی کو فون کیا اور کہا کہ امام کہتے ہیں: ’’میرا دل ڈاکٹر چمران کیلئے بے چین ہو رہا ہے۔ ان سے کہو کہ وہ تہران آجائیں‘‘ ڈاکٹر ان دنوں ’’سوسنگرد‘‘ کے علاقے میں زخمی ہوگئے تهے۔ ان کا پاؤں زخمی ہوا تها۔ امام کا پیغام سن کر تہران روانہ ہوئے اور امام کی خدمت میں باریاب ہوئے۔
ہم ان کے ہمراہ اس علاقے کے محاذ اور چڑهائی سے متعلق نقشے بهی خدمت میں لے گئے۔ ڈاکٹر کا پاؤں زخمی تها۔ وہ پاؤں سمیٹ کے دو زانو نہیں بیٹه سکتے تهے لیکن امام کے احترام کی خاطر بڑی مشکل سے دو زانو ہو کر بیٹه گئے۔ باوجود اس کے کہ ان کو بہت سخت تکلیف ہو رہی تهی برداشت کر کے امام کو اس نقشے کی وضاحت دینا شروع کردی۔ امام اپنی فراست سے سمجه گئے کہ ڈاکٹر کو تکلیف ہو رہی ہے۔ فرمایا:
’’ڈاکٹر! اگر تکلیف ہو رہی ہے تو اپنا پاؤں پهیلا لو‘‘ ڈاکٹر نے کہا: ٹهیک ہوں۔ امام نے فرمایا: ’’کہہ رہا ہوں کہ پاؤں پهیلاؤ‘‘ ڈاکٹر نے امام کے احترام میں پاؤں نہ پهیلائے اور کہا کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اس کے بعد امام نے ذرا خاص لہجے میں کہا: ’’کہہ رہا ہوں کہ پاؤں پهیلاؤ اور آرام سے بیٹه جاؤ‘‘ اب تو مجبور ہو کر ڈاکٹر نے امام کی بات مان لی۔ جب ملاقات کا وقت پورا ہوا۔
امام اب عوام کے دیدار کیلئے حسینیہ جماران جانے والے تهے۔ اس لیے اپنے فرزند احمد آقا کو جو صحن میں بیٹهے ہوئے تهے آواز دی اور فرمایا: ’’احمد، احمد‘‘ لیکن آقائے احمد صحن کے اندر تهے۔ امام کی آواز نہ سن پائے۔ میں نے پهر صحن کے اندر جا کر آواز دی اور کہا کہ امام آپ کو بلا رہے ہیں۔ جب آقائے احمد، امام کی خدمت میں آئے تو امام نے ان سے کہا: ’’یہ میزیں جو رکهی ہیں، آقائے چمران پاؤں کے زخمی ہونے کی وجہ سے ان پر سے گزر تو نہیں سکتے۔ لہذا ان کو ہٹاؤ اور راستہ کهول دو‘‘۔