راوی: محسن رفیق دوست
۱۳۶۱ ه ش (۱۹۸۲ء) میں امام ؒ سے ایک ملاقات کا اتفاق ہوا۔ اس غرض سے جب گهرکے صحن میں داخل ہوا تو ایک بوڑها شخص کہ جس کے ہاتھ میں بادام کا ایک تهیلہ تها اس نے ترکی لہجے میں، مجھ سے کہا: جناب! اگر امام کی خدمت میں رسائی ہو تو یہ عرض کر دیجئے گاکہ ’’ارسباران‘‘ سے ایک بوڑها آدمی لمبی راہ طے کر کے آیا ہے اور آپ کی خدمت میں باریاب ہونا چاہتا ہے۔ اس کے بعد کہا: میں چاہتا ہوں کہ بادام کا یہ تهیلہ امام کی خدمت میں پیش کروں۔ میں نے اس بوڑهے سے وعدہ کر لیا کہ اس کا پیغام امام ؒ تک پہنچاؤںگا۔ جب میری ملاقات کی باری ہوئی تو حجج اسلام آقائے محلاتی (شہید)، انواری اور موحدی کرمانی اور پورے ملک کے تهانوں سے امام ؒکے نمایندے بهی آپ کی ملاقات کیلئے وہاں موجود تهے۔ جس وقت امام ؒنے آقائے صانعی سے کہا: ’’فی الحال میں تهکا ہوا ہوں۔ لہذا میں ان حضرات سے ملاقات نہیں کرسکتا‘‘ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ جب امام ؒنے اپنے نمایندوں کو ملنے سے منع فرمایا ہے تو کیسے اس بوڑهے آدمی سے ملاقات کریںگے۔ لیکن بہرحال میں نے امام کی خدمت میں ماجرا بیان کردیا اور کہا کہ ایک بوڑها شخص آپ کے دیدار کا بڑا مشتاق ہے۔ امام نے فوراً کہا: ’’ان سے کہو کہ آجائیں‘‘ جب بوڑها آدمی داخل ہوا تو امام نے بڑی ہمدردی کے ساته اس کے احوال پوچهے اور کمر کی حد تک جهکے کہ اس کا ہاته چوما۔