28 دسمبر 1978ء نوفل شیٹا میں امام خمینی نے کئی بار صحافیوں کے ساته گفتگو کی۔ امام(رہ) کی ذاتی زندگی سے متعلق، فرانسیسی روزنامہ(جمعہ، ہفتہ، اتوار) کے سوالات کا بهی مختصراً جواب دے دیا۔
نامہ نگار: برائے مہربانی، اپنی نجی زندگی سے متعلق، سنہ63 کے بعد کے بارے میں وضاحت فرما دیجئے!
امام: میری ذاتی زندگی، دیگر عوام کی طرح، سادہ اور معمولی سی زندگی ہے۔ میں بهی ایک طالبــعلم ہوں، دوسرے طلاب کی طرح۔
نامہ نگار: جلاوطنی ایام میں جو ایران سے دور تهے، زندگی کیسی گزاری؟
امام: قریب ایک سال ترکی میں اس کے بعد، مجه نجف اشرف کی طرف جلاوطن کردیا گیا اور چودہ سال عراق میں گزاری اور اب یہاں پر ہوں۔ ان سالوں میں دینی مسائل کے تدریس میں مصروف رہتا تها اور کبهی کبهار، پیغام یا تقریر کے ذریعے عوام کو شاہی جرائم کے بارے میں خبردار کرتا رہا۔ اس مدت میں، میں ایک لمحے کیلئے بهی سکوت اختیار نہیں کی۔
نامہ نگار: فرانس کو رہنے کیلئے کیسے منتخب فرمایا اور یہ خاص مکان کس طرح سکونت کیلئے آپ نے معین فرمایا؟
امام: ابتدا میں کویت سے شام جانے کیلئے سوچا تها۔ کویتی حکومت نے ویــزا ہونے کے باوجود، ہمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی! اور کہنے لگی کہ ہمیں خوف وخطر کا احساس ہے! یہاں تک کہ سیدها ایئرپورٹ جانے کو بهی خطرناک جانا! اسی لئے، ایسے ملک میں ہم اتر آئے کہ دیگر یہ مسائل نہ ہو۔ ہاں! اگر کسی اسلامی ملک میں جاکر، میں الہی فریضہ بجا لاسکوں، تو وہاں جاؤں گا۔ ہمیں یہاں پر آنـے کی کوئی دوسری وجہ نہیں۔
نامہ نگار: کیا فرانس حکومت نے آپ کو اس ملک میں رہنے کیلئے، شرائط رکهی ہے؟
امام: فرانس حکومت نے میری رہائش کے متعلق، کوئی شرط نہیں رکهی ہے اور میں بهی، ایرانی قوم کے نقصان میں کسی شرط کو برداشت نہیں کروں گا۔ جی ہاں! ابتدا میں صحافیوں سے بات چیت کیلئے کچه رکاوٹ ڈالی تهی لیکن بعد میں یہ بهی ختم کردی گئی۔
نامہ نگار: اپنی روزمرہ زندگی کے بارے میں ہمیں بتا دیجئے۔
امام: روزانہ سولہ گهنٹے سے زائد کام میں مصروف رہتا ہوں۔ البتہ یہاں کے اور نجف اشرف کے کاموں کی نوعیت مختلف ہے۔ انٹرویوز، مذاکرے اور کبهی تقریر، رسیدہ رپورٹوں کا پڑهنا، ٹیلی گراف اور خطوط کی قرائت اور ان کے جوابدہی وغیرہ، میرا روزمرہ کاموں میں شمار ہوتا ہے۔
نامہ نگار: آپ کیسے اپنے پیغامات ایران روانہ فرماتے ہیں؟
امام: فی الحال، ٹیلی فون اور مختلف افراد کے ذریعے سے۔
این پیامها چگونه به دست خبرنگاران مى رسد؟
نامہ نگار: اور یہ بیانات کس طریقے سے صحافیوں کے ہاتهـ پہنچتے ہے؟
امام: ایران کی صورتحال ایسی ہے جو کہ نہ صرف صحافیوں کی نگاہیں اس طرف مجذوب ہوچکی ہیں بلکہ پوری دنیا میں عوامی نگاہیں بهی اس کی طرف متوجہ ہوگئی ہیں۔ یہ کیسا ہوسکتا ہے کہ ایک صحافی ایرانی مسائل سے دلچسپی لے اور یہ اعلامیے اس کے دستـرس میں نہ ہو؟
نامہ نگار: کیا آپ روزانہ تمام خطوط کے جوابات جاری کردیتے ہیں؟
امام: جی ہاں! اگر ضرورت ہو تو۔
نامہ نگار: آپ نوفل شیٹا کے رہنے والوں کے ساتهـ رابطے میں ہیں؟ آپ کو معلوم ہے کہ اس چهوٹا شہر میں کیا گزر رہا ہے؟
امام: جی ہاں! ان میں سے بعض یہاں آئے ہیں۔
نامہ نگار: کیا آپ نے کبهی اور کسی وقت، ایران واپس جانے کے بارے میں سوچے ہیں؟
امام: جی ہاں! جب بهی مصلحت میں جانا، ایران واپس جاؤں گا۔ مکان کی بات نہیں، جو چیز اہمیت رکهتی ہے، ظلم کے خلاف بر سر پیکار ہی رہنا ہے۔ لہذا جہاں کہیں بهی بہتر طریقے سے یہ کام انجام دے سکوں، ضرور وہاں جاؤں گا۔
شکریہ
صحیفه امام، ج5، ص 300 و 301