تم پر درود و سلام ہو اے عزادارو، اے غمگسارو، اے اربعین کے سوگوارو تم سب پر سلام لیکن کیا بات ہے ان کی جو حسین ابن علی کے عشق میں کربلا کی مقدس سرزمین پر وارد ہوئے ہیں۔ اے کربلا میں موجود زائرو، تم پر ہم سب کی جانب سے درود و سلام۔ تم کو خدا کی قسم اے زائرین اربعین، تم جو آج کربلا میں ہو، تمہیں مادر حسین ؑ کی قسم کہ ہم جو آج کربلا میں نہیں ہیں، ہماری نیابت کرتے ہوئے حرم مطہر امام عالی مقام میں مادر حسین ؑ سے اور منتقم خون فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بارگاہ میں ہمارا سلام اور یہ عہد بهی پیش کرنا۔ کہنا کہ آج پوری دنیا سوگوار ہے اور دنیا کے ان باضمیر انسانوں کی صدا ہے: ۔۔ ابد واللہ! یا زهرا! ماننسیٰ حسینا! ۔
کوئی مسئلہ نہیں کہ ہم اسے چہلم کہیں یا اربعین، 20صفر شہدائے کربلا اور سرور و سالار شہیدان کے پیغام کو زندہ و تابندہ رکهنے کے لئے تجدید عہد وفا کا دن ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسیران شام سے مدینہ واپسی پر پہلے اربعین یا چہلم پر کربلا زیارت پر آئے یا نہیں لیکن کوئی اس حقیقت کی تردید نہیں کرسکتا کہ بعد ازاں وہ بهی اس روز زیارت پر آئے۔ کوئی جهٹلا نہیں سکتا کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے عظیم بابصیرت صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری اور حضرت عطیہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) 61 هجری کے ماہ صفر کی 20تاریخ کو کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کے لئے بنفس نفیس حاضر ہوئے۔ قبر سے لپٹے اور گریہ و زاری کی۔ جی ہاں! یہ سنت صحابہ بهی ہے کہ قبر امام حسین علیہ السلام سے لپٹ کر گریہ و زاری کی جائے۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری وہ بزرگ صحابی تهے جو اس وقت ظاہری بینائی سے محروم ہو چکے تهے لیکن انقلاب اسلامی ایران نے نابینا افراد کے لئے ’’روشن دل‘‘ کی اصطلاح دنیا کے سامنے پیش کی اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ حضرت جابر بابصیرت تو تهے ہی لیکن ظاہری طور پر بهی روشن دل بهی تهے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی عطا کردہ اربعین حسینی ؑ کے لئے مخصوص زیارت آج بهی 20صفر کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس دور میں امام حسین (ع) کے حقیقی فرزند امام خمینی نے ایران میں اسلامی انقلاب کو کامیابی سے برپا کرکے اسلامی حکومت قائم کی تو یہ واضح کیاکہ یہ محرم و صفر ہیں جنہوں نے اسلام کو زندہ رکها ہوا ہے۔ بت شکن خمینی کے استکبار شکن جانشین امام خامنہ ای نے20 صفر کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور اس کی خاص طور پر تاکید کی ہے۔
نور وجود از طلوع روئے حسین است،
ظلمت امکان، سواد موئے حسین است
شاهد گیتی بہ خویش جلوہ ندارد
جلوہ عالم، فروغ روئے حسین است
جان نہ دہم جز بہ آرزوئے جمالش
جان مر ا، دل بہ آرزوئے حسین است
عاشق او را چہ اعتنا ست بہ جنت
جنت عشاق خاک کوئے حسین است
دلم فقط کربلامی خواهد، حسین ؑ!
اسلام ٹائمز اردو