شہیدان کربلا کو دشمن اسلام اموی حکمران یزید نے باغی قرار دینے کی سازش کی لیکن خاتم الانبیاء(ص) کی شجاع نواسی حضرت بی بی زینب(س) اور فرزند امام حسین(ع)، علی زین العابدین(ع) نے دربار یزید میں قیدی ہوتے ہوئے حق کو آشکار کیا اور باطل کو ذلیل و رسوا کیا۔
یزیدی حکومت اور افواج نے جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا، اس نے نہ صرف یہ کہ خاندان ولایت نبوت و رسالت و امامت و خلافت کو سوگوار کردیا بلکہ جس نے بهی یہ واقعہ سنا، وہ غم سے نڈهال ہو گیا۔ میدان کربلا ہی میں خاندان نبوت(ص) نے شہداء کے لاشوں پر گریہ و زاری کرکے عزاداری کا سلسلہ شروع کردیا تها۔
امام حسین(ع) اور ان کے باوفا اصحابؓ پر اور ان کے بعد ان کے خاندان پر جو میدان کربلا کے خیموں میں موجود تهے، ان پر جو مصائب ٹوٹے، اس کی یاد میں عزاداری کا جو سلسلہ میدان کربلا، دربار یزید، قید خانہ یزید اور مدینہ سے شروع ہوا، وہ پورے عالم اسلام تک پهیل گیا۔ پاکستان یا ہندوستان ہی کو دیکه لیں۔ کیا سنی کیا شیعہ، کیا مسلمان اور کیا ہندو اور مسیحی، سبهی اس شعر کی تصویر بنے نظر آتے ہیں:
در حسین ؑ پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے، آدمی کے لئے
دنیا بهر میں مختلف اقوام نے شہیدان کربلا کی یاد کو اس طرح منانا شروع کیا جیسے وہ اپنوں کے مرنے کا غم منایا کرتے تهے۔ شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت نے اقوام عالم کو ان کی آئیڈیالوجی سے بهی آشنا کیا تو پوری دنیا کے یزید صفت حکمرانوں اور ان کے ابن زیاد صفت گماشتوں کے خلاف عزاداری نے ایک عالمگیر انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اب عزاداری صرف سنت یا روایت ہی نہیں بلکہ اصلاح و انقلاب کا استعارہ بن چکی ہے۔ ہندوستان میں حسینی برہمن پیدا ہوگئے۔ دهرمندر ناته، ماتهر لکهنوی، بیدی جیسے دانشور و شعراء نے امام حسین(ع) کی مدح سرائی کی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح اور مہاتما گاندهی دو متضاد سیاسی نظریئے کے حامل تهے لیکن امام حسین(ع) کی مداحی میں ہم زبان تهے۔ ایڈورڈ گبن، چارلس ڈکنز، تهامس کارلائل، جیمز کورن سمیت متعدد اہم شخصیات نے شہیدان کربلا اور خاص طور پر سرور و سالار شہیدان کو انقلابی و مصلح قرار دیا۔
ہر چند اہل جور نے چاہا یہ بارہا
ہو جائے محو، یاد شہیدان کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسین کا
لیکن کسی کا زور ،عزیزو، نہ چل سکا
محمد علی جناح ؒ کے آئیڈیل بهی امام حسین(ع) تهے اور جناح صاحب نے عالم انسانیت اور خاص طور پر مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ امام حسین(ع) کی قربانیوں سے سبق سیکهے اور امام حسین(ع) سے رہنمائی لے۔
باپو گاندهی نے کہا کہ اگر ہندوستان کامیاب ہونا چاہتا ہے تو امام حسین(ع) کے نقش قدم پر چلے۔ عالم انسانیت اپنے دور کے یزید سے ٹکرانے کے لئے شہدائے کربلا کے علاوہ کوئی دوسری عملی مثال لانے سے قاصر ہے۔
اگر ایران میں امام خمینی(رح) کی قیادت و رہبری میں اسلامی انقلاب آیا تو یہ بهی شہدائے کربلا کے انقلاب حسینی(ع) کا صدقہ تها اور خود بانی انقلاب نے کہا کہ ہمارے پاس جو کچه ہے محرم و صفر کی وجہ سے ہے کیونکہ محرم تا صفر عزاداری برپا کی جاتی ہے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز اردو