اسلام میں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بالکل کوئی فرق نہیں

اسلام میں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بالکل کوئی فرق نہیں

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور نظام کے حکام نے بهی اقلیتوں کےلئے امن و سلامتی اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی انتهک کوششیں کی ہیں۔

إِنَّ هذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ  / انبیاء-92

بیشک یہ تمهارا دین ایک ہی دین، اسلام ہے اور میں، تم سب کا پروردگار ہوں، لہذا میری ہی عبادت کرو۔

اسلام میں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بالکل کوئی فرق نہیں ہے، اور شیعوں اور اہل سنت کے درمیان فرق ہونا بهی نہیں چاہئے، ہمیں اتحاد ویکجہتی کا تحفظ کرنا چاہئے۔ ہم ان کے بهائی ہیں اور وہ ہمارے بهائی ہیں۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ

اہل سنت کے بزرگوں اور ان کے مقدسات کی بے احترامی کرنا، خاص کر رسول اکرم(ص) کی اہلیہ پر بد کرداری کا الزام لگانا حرام ہے ۔ کیونکہ یہ امر انبیاء کی بیویوں خاص کرسید المرسلین(ص) کے بارے میں نا ممکن ہے- "

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ)

ایران میں سکونت پذیر اقلیتوں میں سے ایک برادران اہل سنت ہیں، انهوں نے انقلاب کے دوران اور انقلاب کی کامیابی کے بعد مختلف مراحل میں اسلامی نظام کے تحفظ اور اس کے ماحصل کی پاسداری کے سلسلے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور نظام کے حکام نے بهی اقلیتوں کےلئے امن و سلامتی اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی انتهک کوششیں کی ہیں۔

اسلامی نظام اپنی اس سرزمین کے باشندوں کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے اور اس ملک کے تمام باشندے آئین کے مطابق اپنے حقوق کے حقدار ہیں اور استعماری طاقتوں کی طرف سے شیعوں اور اہل سنت کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی سازشوں پر سازشیں کی گئیں لیکن خوش قسمتی سے ان کی تمام سازشیں ناکام ہوئی ہیں اور ان دشمنوں کی طرف سے برادران اہل سنت کو نظام کے مسئولین سے بدظن کرنے کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ نمبر 12 کے مطابق ملک کا سرکاری دین " دین حنیف اسلام " ہے اور اگرچہ ملک کی قطعی اکثریت کے "جعفری" مسلک کے پیرو ہونے کی وجہ سے، جعفری مسلک سرکاری مذہب شمار ہوتا ہے، لیکن ملک کے آئین کے مطابق دوسرے اسلامی مذاہب منجملہ "حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی" مذاہب کا پورا پورا احترام ہے اور ان مذاہب کے پیرو اپنی مذہبی تقریبات اور رسم و رسومات اپنی فقہ کے مطابق انجام دینے میں آزاد ہیں اور ان کی دینی تعلیم و تربیت اور فقہی مسائل (جیسے ازدواج، طلاق، وراثت اور وصیت) کے بارے میں ہماری عدالتوں میں دعوی کرنے کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور جن علاقوں میں مذکورہ مذہب میں سے جس مذہب کی اکثریت ہو، اس میں علاقائی قوانین، وہاں کی شوری کے توسط سے اسی مذہب کے مطابق نافذ العمل ہوں گے۔

ایک ملک کے باشندوں کے درمیان پر امن روابط بر قرار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ اس سلسلہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین تمام مسلمانوں کے درمیان پر امن اور برادرانہ روابط قائم کرنے اور ہر قسم کے اختلافات سے پرہیز کرنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اس بنا پر دوسرے اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کی ہر قسم کی بے احترامی کرنا قانونی طور پر منع ہے اور خلاف ورزی پر مجرمین کو سزا دی جائے گی۔

جی! یہ ہے اسلام ناب محمدی(ص) کے جهلک اور عملی آثار بهی آپ نزدیک سے مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ تمام برادران اسلامی اس ملک میں متحد ویکجہت "لبیک اللہم لبیک یا رب" کا نعرہ بر دل وزبان اپنی سعادت دنیوی واخروی کی طرف گامزن ہیں۔

ومن اللہ التوفیق والسعادۃ


ای میل کریں