سوال: کفّارے کے روزے کی کتنی اقسام ہیں؟
جواب: ایسے کفّارے کا روزہ کہ جس کے ہمراہ کچھ اور بھی واجب ہو اور یہ قتل عمد کا کفّارہ ہے کہ جس میں تینوں طرح کا کفّارہ واجب ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر حرام کام سے ماہ رمضان کا روزہ باطل کرنے کا کفّارہ بھی اسی طرح ہے۔
کفّارے کا ایسا روزہ کہ جو روزے کے علاوہ کچھ واجب کی ادائیگی سے عاجز ہونے کی وجہ سے عائد ہوجاتاہے اور وہ ہے ظہار کا کفارہ اور قتل خطاء کا کفارہ کیوں کہ ان دو صورتوں میں روزہ تب واجب ہوتا ہے جب کوئی غلام آزاد نہ کرسکے۔ یہی صورت ماہ رمضان کا قضاء روزہ افطار رکرلینے کی ہے۔ اس میں بھی فقیر کو طعام نہ دے سکنے کے سبب کفّارے کے لئے روزہ واجب ہوتا ہے۔ یہی حالت قسم کے کفّارے کی ہے۔ اس کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا یا دس فقیروں کو سیر کرنا یا لباس پہنانا ہے اور اگر کوئی ان میں سے کوئی بھی کام نہ کرسکے تو پھر تین دن روزہ رکھے۔ نیز یہی حکم اس عورت کے لئے ہے جو کسی مصیبت کے مواقع پر اپنے چہرے کو اس طرح سے نوچ ڈالے کہ خون نکل آئے یا مصیبت کے مارے اپنے سر کے بال نوچ ڈالے
اور یہی کفارہ اس مرد کے ذمّے ہے جو بیوی یا بچّے کے غم میں اپنا لباس پھاڑ ڈالے۔ یعنی یہ دونوں کفّار بھی قسم کے کفّارے کے برابر ہیں نیز عرفات سے جان بوجھ کر قبل از غروب اونٹ کی قربانی نہ کرسکنے کی صورت میں کوچ کرنے والے کے لئے کفّارہ یہ ہے کہ وہ اٹھارہ دن روزہ رکھے۔ اسی طرح اگر احرام باندھے ہوئے کوئی شخص شتر مرغ کا شکار کرلے تو اس کا کفارہ ایک اونٹ ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اس کی قیمت کے برابر کھانا تیار کرے اور ساٹھ فقیروں کو صدقہ دے اور اقوی کی بناء پر ہر ایک کو ایک مد کھانا دے اور احتیاط مستحب کی بناء پر ہر ایک کو دو مد دے اور اگر وہ ساٹھ افراد سے زیادہ کے لئے ہو تو ساٹھ ہی پر اکتفاء کرے اور اگر وہ ساٹھ کو پورا نہ آسکے تو واجب نہیں کہ ساٹھ ہی کو دے البتّہ دو مد کی احتیاط اس جگہ پر ہے کہ جہاں دو مد دینے کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ ساٹھ افراد سے کم کو ملے ورنہ ضروری ہے کہ ایک مد پر ہی اکتفاء کی جائے اور ساٹھ کی تعداد مکمل کی جائے اور اگر کوئی شخص صدقہ دینے سے عاجز ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر ہر مد طعام کے بدلے ایک روزہ رکھے اور اس طرح سے کل ساٹھ روزے رکھے اور شتر مرغ کا کفارہ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہے(یعنی ساٹھ دن سے زیادہ کے روزے نہیں ہیں ) اور اگر ایسا بھی نہ کرسکے تو اٹھارہ روزے رکھے۔ نیز اگر کوئی شخص حالت احرام میں جنگلی گائے شکار کرلے تو اس کا کفّارہ ایک گائے کی قربانی ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اس کی قیمت کا کھانا تیار کرے اور تیس فقیروں کو صدقہ دے اس طرح سے کہ ہر ایک کو اقویٰ کی بناء پر ایک مد اور احتیاط مستحب کی بناء پر دو مد دے اگر اتنا ادا کرکے پیسے بچ جائیں تو اس کے اپنے ہیں اور اگر کم پڑجائے تو پھر باقی گنتی پوری کرنا واجب نہیں ہے اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اگر دو مد دینے کا نتیجہ یہ ہو کہ تیس افرادکو نہ دیا جاسکے تو پھر دو مد کی احتیاط پر عمل نہ کرے اور اگر ایسا کرنے سے عاجز ہو توپھر احتیاط کی بناء پر ہر ایک مد کے بدلے ایک روزہ رکھے اور یوں تیس روزے رکھے اور اگر ایسا بھی نہ کرسکے تو نوروزے رکھے اور یہی کفارہ جنگلی گدھے کا بھی ہے اور احتیاط یہ ہے کہ اس کے لئے شتر مرغ کا کفارہ ہو اور اگر کوئی احرام باندھے ہوئے ہرن کا شکار کرے تو اسکا کفارہ ایک بکریٰ ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اس کی قیمت کا کھانا خریدے اور دس فقیروں کو صدقہ دے۔ اقویٰ کی بناء پر ہر ایک کو ایک مد اور احتیاط مستحب کی بناء پر دو مد دے اور کھانا کم وبیش ہوجانے کی صورت نیز اس سلسلے میں احتیاط کا مسئلہ ایسے ہی ہے جیسے پہلے ذکر کیا جاچکا ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ہر مد طعام کے بدلے ایک روزہ رکھے اور اس طرح دس روزے پورے کرے کہ جو ہرن کے لئے زیادہ کفارہ ہے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو تین دن روزہ رکھے۔
کفّارے کا ایسا روزہ کہ جس میں اختیار ہے کہ روزہ رکھ لے یا دوسرا کام کرلے اور وہ ہے ماہ رمضان کا روزہ نہ رکھنے کا کفارہ ،جماع سے اعتکاف کو باطل کردینے کا کفّارہ ،مصیبت میں عورت کا اپنے بال نوچ لینے کاکفّارہ اور نذر و عہد کا کفارہ۔ ان سب امور میں آدمی کو اختیار ہے کہ تین کفاروں میں سے کوئی ایک انتخاب کرے (یعنی ایک غلام آزاد کرنا، دو ماہ روزے رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا۔ ان میں سے کوئی ایک)۔
تحریر الوسیلہ، ج 1، ص 332