نماز

حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھنے کی وضاحت فرمائیے؟

نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ پوری نماز میں چاہے نماز کے اذکا ر ہوں یا افعال، حضور قلب کے ساتھ رہے کیوں کہ ...

سوال: حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھنے کی وضاحت فرمائیے؟

جواب: نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ پوری نماز میں  چاہے نماز کے اذکا ر ہوں  یا افعال، حضور قلب کے ساتھ رہے کیوں  کہ نماز کی اتنی ہی مقدار اس کے لئے شمار کی جائے گی جوحضور قلب کے ساتھ انجام پائے اورحضور قلب سے مراد یہ ہے کہ نماز اور ہر اس چیز کی طرف متوجہ رہے کہ جو اس میں  پڑھی جاتی ہے اور تمام تر توجہ اپنے حقیقی معبود اور اس کی عظمت وجلا لت وہیبت کی طرف رکھے اور اپنے دل سے اس کے علاوہ ہر چیز کو نکال دے پھر اپنے آپ کو باد شاہوں  کے بادشاہ اور عظیم ترین ہستی کے سامنے سمجھے او ر اسے خطاب کرے اور اس کے ساتھ مناجات کرے اور جب اپنے اندر یہ کیفیت محسوس کرے تو اس کے دل میں  ایک ایسی ہیبت پیدا ہو گی کہ جو اسے متزلزل کرکے رکھ دے گی اور پھر وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے میں  کوتاہ پائے گا اور اس کے دل میں  خوف پید ا ہو جائے گا اور پھر اس کی رحمت واسع پر نظر کرے گا اور اس کے ثواب کا امید وار ہو گا۔ پس اس میں  رجاء کی حالت پیدا ہو جائے گی کہ جو کامل افراد کا وصف ہے اور یہ  کیفیت عبادت کرنے والوں  کی حالت کے مطابق متعدد درجات اور بے شمار مراتب رکھتی ہے۔نماز پڑھنے والے کو خضوع وخشوع اور سکون وقار کے ساتھ ہونا چاہئے نیز اسے چاہئے کہ نماز سے پہلے اچھی صورت بنا کر کھڑا ہو، عطر لگا ئے، مسواک کرے اور کنگھی کرے اور اسی طرح اسے چاہئے کہ وداع کرنے والے کی طرح نماز پڑھے پھر تو بہ، انابت اور استغفار کو دوبارہ انجام دے اور اپنے پر وردگار کے سامنے عبد ذلیل کی مانند کھڑا ہو جائے پھر ’’ ایاک نعبد وایاک نستعین ‘‘کہیے جب کہ اسے اپنے قول میں  سچاہونا چاہئے کہیں  ایسانہ ہو کہ اس جملے کو توا داکرے لیکن ہوائے نفس کی عبادت کرنے والا ہو اور اپنے رب کے غیر سے استعانت طلب کر رہا ہو۔ نیز اسے کو شش کر نی چاہئے کہ قبو لیت نماز کی راہ میں  حائل موانع کو اپنے آپ سے بر طرف کرے مثلاخود پسندی غیبت، تکبر ،زکوٰۃ اور باقی واجب حقوق ادا نہ کرا نا قبولیت نما ز کی راہ میں  موانع ہیں۔

تحریر الوسیلہ، ج1، ص 171

ای میل کریں