روح اللہ، مرد توحیدی نے عوام کی فکر میں نئی روح پھونکےگا۔
گزشتہ صدی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس عرصہ میں انقلابی فکر اور قیادت نے مسلمانوں کو خصوصاً ایک نئی کیفیت سے آگاہ کیا اور ایک اہم اسلامی ملک کی حکومت ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والوں کےلئے راہ ہموار کر رہی تھی؛ بیسویں صدی میں کسے خبر تھی کہ ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جو عوام کی فکر میں ایک نئی روح پھونکےگا اور "مرد خدا، مرد انقلاب" کہلائےگا۔
سامراج مغربی حکومتوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے دنیائے اسلام کے وسیع علاقوں پر جبری اور آپسی تفرقہ اندازی سے قبضہ کیا اور وہاں تشدد، مال و طاقت کی بدولت استعماری طاقتوں کی خفیہ اور علانیہ، مداخلت کا سلسلہ شروع کردیا۔
ایران میں بھی ۲۵۰۰ سالہ سلاطین برسر اقتدار آئے اور عوام پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے مگر ایران کے دیندار عوام نے اس نو آبادیاتی نظام کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس ناکامی پر دشمن اور امریکہ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی اور یہاں کے وسائل حضوصاً تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور ایران کی شاہی حکومت کے ذریعے مغربی طرز حکومت کی بنیاد رکھنے کا منصوبہ بنایا۔
ایک واقعہ گزشتہ صدی کے دوران، ایران میں رونما ہوا جس نے انقلاب اسلامی کی راہ ہموار کی اور ایرانی عوام باشعور علماء کی قیادت میں اپنی منزل (اسلامی جمہوریت) کیطرف رواں دواں تھی۔ ان صف اول کے رہنمائوں میں سے ایک شخصیت نے خود کو دوسروں سے الگ کردیا؛ ممتاز مجاہد، عالم دین آیت اللہ، "روح اللہ موسوی خمینی" وہ تاریخ ساز نام ہے جس نے انقلاب کی جنگ، استقامت کے ساتھ لڑی۔
سید روح اللہ موسوی خمینیؒ نے نور توحید کی شمع باقی رہنے کا سامان پیدا کیا تو باطل کی تاریکی خود بخود روشنی میں تبدیل ہوگئی؛ بھلا اس حقیقت کو کون جُھٹلا سکتا ہےکہ ہر اندھیری رات ایک روشن دن پر ختم ہوتی ہے۔
۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کی صبح کو ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا اور ظالم بادشاہوں کا طویل سلسلہ بادشاہت بھی ختم ہوگیا۔