کیا امام خمینی کیجانب سے اتحاد بین المسلمین یعنی عقیدہ سے دستبردار ہونا ہے؟

کیا امام خمینی کیجانب سے اتحاد بین المسلمین یعنی عقیدہ سے دستبردار ہونا ہے؟

دشمن سب سے زیادہ جس نزاع کو ایجاد کرنے کے درپے ہے وہ شیعہ سنی کا جھگڑا ہے۔

حضرت امام (رح) کے آثار اور سیرت اس بات کا گواہ ہیں کہ آپ، ہمیشہ ولایت کے سرسخت حامی رہے ہیں، اس کے باوجود کیا آپ کیجانب سے وحدت کی سفارش، آپ کا اپنے عقیدہ سے رخ موڑنے کے معنی میں ہیں؟ کیا یہ صرف ایک مصلحت ہے؟

امام روح اللہ خمینی کی اتحاد بین المسلمین پر سفارش اور اس کلام پر زور دینا، آپ کی ہوشیاری اور بصیرت و دوراندیشنی کی دلیل ہے جس نے ایران اور انقلاب کو تمام خطرات سے بچائی؛ دشمنان اسلام اور انقلاب جو ہمیشہ سے شیعہ سنی میں افتراق و انتشار ڈالنے میں ہر قسم کے حربے کو استعمال کیا ہے، امام نے اپنی قوت ایمان اور ہوشیاری سے ان کی آوازوں کو اس طرح خاموش کیا کہ نہ صرف شیعہ سنی آپس میں نہ لڑے بلکہ ایسی قیادت کی بدولت شیعہ سنی دونوں نے ایک ہی مورچے میں اپنے دشمن سے جنگ لڑی اور خاک وطن سے دفاع کیا اور یوں دشمن کا مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا حربہ اور سازش ناکامیاب ہوا۔

دشمن سب سے زیادہ جس نزاع کو ایجاد کرنے کے درپے ہے وہ شیعہ سنی کا جھگڑا ہے۔ جبکہ ان دونوں میں زیادہ سے زیادہ یکجہتی پایا جاتا ہے؛ ہمارے درمیان بہت سے ایسی اشتراکات ہیں جو وحدت کلمہ کیطرف ہم سب سے جمع کرلیتی ہیں؛ توحید کلمہ یعنی ہم سب کے اللہ اور خالق و معبود ایک ہی ہے، ہم سب ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول اور خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیز آسمانی کتاب قرآن مجید پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں؛ قبلہ سب کا ایک ہے؛ اسی طرح بہت سے شرعی احکام میں بھی مشترکات پائے جاتے ہیں اور امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب (ع) کی عظمت اور برادر رسول اللہ کے عنوان سے قبول کرتے ہیں اور اس پر اعتقاد رکھنے کے حوالے سے ہم اکثر اہل سنت کے ساتھ ہیں۔

اہل سنت کے بزرگ علماء، امام علی (ع) کے اخلاص، صداقت، شجاعت، بہادری، بصیرت و دور اندیشی اور پیغمبر اعظم (ص) کی مصاحبت کی تعریف کرتے ہیں۔

پھر کیوں ایسے لوگوں میں جو یہ تمام مشترکات رکھتے ہیں دشمنی اور جھگڑا ہونا چاہیئے؟

کیا اس کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہےکہ یہ تمام دشمنوں کا حربہ ہے تاکہ اپنے ناپاک اور برے عزائم تک پہنچے؟ اور ہمیشہ سے یہ دشمن کا حربہ رہا ہے۔ کیا جو لوگ اس حربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ امیرالمؤمنین (ع) کے دشمن ہیں یا دوست؟ یقیناً دوست نہیں ہوسکتا؛ اس بنا پر حوصلہ اور ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

امام راحل (رح) کا شیعہ سنی اتحاد سے مراد یہ نہیں کہ شیعہ سنی اور سنی شیعہ بن جائے اور ہر ایک اپنے معتقدات سے کنارہ کشی کریں بلکہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بنیادی مشترکہ امور پر پورے وجود کے ساتھ ایک ہوجائیں؛ اسلام دشمن عناصر کے مدمقابل، اساسی مشترکات پر متفق ہوجائیں۔ دشمن، مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دینے اور ان کی کمزوری چاہتا ہے۔ مسلمانوں کے مادی و معنوی ذخائر کو دونوں ہاتھ لوٹنا چاہتا ہے اور امتوں اور آزاد فکر جوانوں کو سچے اسلام کی نسبت، بدبین بنانا چاہتا ہے۔

درحقیقت امام راحل (رح) کے کلام کا مقصد یہ ہےکہ آئیں ہم اپنے مشترکہ دشمن کو پہنچاں لیں، اس کے ہٹھکنڈوں کو سمجھیں اور اپنے مشترکات کے گرد متحد ہوجائیں، ایک ہاتھ ہوجائیں اور دین و ملت کے دشمنوں کو خود پر مسلط نہ ہونے دیں۔

ای میل کریں