امام خمینی (رح) کے پڑھانے کا انداز

امام خمینی (رح) ہمیشہ دوران تدریس حتی عام حالات میں بھی ہمہ تن گوش، متکلم کی بات سنا کرتے تھے

ID: 56063 | Date: 2018/10/29

امام خمینی (رح) کے دروس کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ (رح) ہمیشہ مفاہیم کو پہلے خود اچھی طرح سمجھتے اور پھر اس پر بحث و گفتگو کرتے لہذا آپ  کبھی بھی مطالب و مفاہیم کو سمجھے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کرتے تھے۔ اور زیر بحث مفاہیم میں، آپ ہمیشہ متکلم کے ہدف اور مقصد پر نظر رکھتے تھے۔ اور یہی خصوصیت رسولخدا (ص) کی سیرت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اگر چہ آپ (ص) خودداری کے کمال پر ہونے کے ساتھ ساتھ گہری نظر اور علم غیب کے بھی حامل تھے لیکن پھر بھی جب دوسروں کی بات سنتے تو پوری توجہ اور بڑی دقت کے ساتھ سماعت فرماتے، یہاں تک کہ کچھ روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ (ص) بعض اوقات متکلم سے فرماتے کہ آپ اپنی بات کو دہرائیں تا کہ میں اچھی طرح تمہاری بات کو سمجھ سکوں۔


لہذا امام (رح) کی تعلیمی اور تربتی سیرت میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی کیونکہ آپ ہمیشہ دوران  تدریس حتی عام حالات میں بھی ہمہ تن گوش، متکلم کی بات سنا کرتے تھے تا کہ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں۔ جب کوئی امام کی اس خصوصیت پر توجہ کرتا تو اسے معلوم ہوجاتا تھا کہ امام کس قدر توجہ اور غور سے دوسروں کی بات سنتے ہیں۔ امام کے اس عمل کی ایک وجہ یہ تھی کہ بہت سارے خرافات اور فسادات یہیں سے جنم لیتے ہیں کیونکہ جب سامع، متکلم کی بات پر توجہ نہیں دیتا تو اسے اس بات کا اصلی مفہوم سمجھ میں نہیں آتا اس لئے وہ خواہ نا خواہ قضاوت کرتا ہے کہ جس سے معاشرہ میں فسادات برپا ہوتے ہیں۔ لیکن امام کی ذاتی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت تھی کہ آپ بات کو غور سے سنتے تھے۔


یہی وجہ تھی کہ آپ کے طریقہ تدریس میں بھی اور کلاس میں بیان کیے جانے والے مفاہیم میں بھی حد درجہ وسعت نظر پائی جاتی تھی کہ جو آپ کے طلاب کی طبیعت میں بھی رچ بس کر ان کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی یعنی آپ کے دروس، اس طرح کے نہیں ہوتے تھے کہ آپ کلاس میں صرف ایک ہی شخص کے کچھ نظریات بیان کریں اور ان کا ہلکا پھلکا تجزیہ کرتے ہوئے درس تمام کردیں بلکہ آپ ہمیشہ اپنے دروس میں مختلف مفکرین کے مختلف نظریات کو بیان کرتے تھے، جس پر طلاب بھی مجبور ہوجاتے تھے کہ وہ مختلف تھیوریز پر تحقیق کریں اور ایک درست اور صحیح نتیجہ تک پہنچ سکیں، حالانکہ اسی زمانہ کچھ ایسے استاد بھی تھے جو ہمیشہ کلاس میں صرف اپنے ہی نظریات و اعتقادات بیان کرتے اور دوسروں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے، انہیں رد کردیتے  اور یہ بات اس زمانے میں، اکثر اساتید کے ہاں رائج تھی۔ اس کے مقابلے میں امام نہ صرف طلاب کو دوسرے مفکرین کے نظریات سے آگاہ کیا کرتے تھے بلکہ اکثر دوسروں کے نظریات کو سرنامہ کلام قرار دے کر اس پر گفتگو کیا کرتے اور ان کی صحیح باتوں کی تائید بھی کرتے تھے۔


حجت الاسلام و المسلمین عباس علی زنجانی