شکر کی حقیقت

شکر صرف قلبی شناخت، زبان سے اظہار اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے کا نام نہیں ہے

منعم کی تعظیم اور اس کی تعریف فطری جذبہ ہے

ID: 54465 | Date: 2018/07/04

شکر نعمت دینے والوں کی قدردانی کا نام ہے اور شکر کی تین اقسام ہیں: 1۔ نعمتوں کا تصور، 2۔ زبان سے شکر کرنا یعنی نعمت دینے والے کی زبان سے تعریف و توصیف کرنا، 3۔ اعضاء و جوارح کا شکر کرنا۔ اس کی گوناگوں تعریف کی گئی ہے لیکن ہم ساری تعریفوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے مطلب پر آرہے ہیں۔


امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: شکر صرف قلبی شناخت، زبان سے اظہار اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک نفسانی کیفیت ہے جو خود منعم اور نعمت کی معرفت کے علاوہ نعمت دینے والے کی طرف سے نعمت عطا ہونے کے احساس کا ثمرہ ہے۔ اس کیفیت کا نتیجہ جسمانی اور قلبی اعمال ہیں۔ شکر کے ارکان ہیں:


1۔ منعم اور اس کے شایان شان صفات کی معرفت، نعمت کی معرفت اور نعمت ہونے کے لحاظ سے یہ معرفت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب انسان کو علم ہو کہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں خداوند عالم کی جانب سے ہیں اور اسی کی ذات پاک حقیقی منعم ہے اور درمیانی تمام وسائل حکم خداوندی تابع اور اس کے سامنے سر تسلیم خم ہیں۔


2۔ یہ اس حالت اور کیفیت سے عبارت ہے جو مذکورہ معرفت کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور یہ حالت خضوع و خشوع، تواضع اور نعمت کے ملنے کے خوشی پر مشتمل ہوتی ہے کیونکہ یہ نعمت خداوند سبحان کا ایک عطیہ، تحفہ اور ہدیہ ہے جو تیرے اوپر منعم کی نظر عنایت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کا درس اور پیغام ہے کہ دنیا میں کسی چیز کے ملنے پر خوش نہ ہونا۔ ہاں اگر کوئی ایسی چیز ملے جو اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہو تو کیا بہتر۔


اس کا تیسرا رکن مذکورہ کیفیت کا ثمرہ سے عبارت ہے، کیونکہ جب یہ حالت پیدا ہوتی ہے تو دل میں نشاط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اگر اللہ سے قریب کرے  تو اس عمل کی انجام دہی کا شوق پیدا کرتی ہے اور اس عمل کا تعلق دل، زبان اور دیگر اعضاء و جوارح سے ہوتا ہے دل کا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے نعمت دینے والے اور دانا کی تعظیم، تکریم، تمجید اور حمد و ثنا کرے نیز اس کی مخلوقات، اس کے افعال و آثار میں غور و خوض کرے اس کے علاوہ اس کے بندوں کے ساتھ خیر و بھلائی اور نیکی و احسان کرے۔ زبان کا عمل یہ ہے کہ وہ منعم کی نعمتوں کا اظہار اس کی حمد و ثنا، تمجید و تہلیل اور تسبیح نیز امر بالمعروف اور نہی از منکر سے کرے۔


خلاصہ اگر کوئی نعمت ملے تو نعمت دینے والے کا زبان سے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت اور اہمیت کا دل سے اعتراف کرے اور اپنے اعضاء اور جوارح سے ظاہر کرکے بتائے کہ منعم نے ہمیں یہ نعمت دی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے۔ خدا نے انسان کو آنکھ، زبان، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء دیتے ہیں تو ہر نعمت کا شکر جدا جدا اور اس کے اعتبار سے ہوگا۔ زبان کسی کی غیبت، برائی اور چغلخور نہ کرے، گالم گلوچ نہ کرے، بدزبانی نہ کرے، کان برائیاں اور گانے و غیرہ نہ سنے، اسی طرح سارے اعضاء و جوارح اپنے حدود میں خدا کی دی ہوئی ان نعخمتوں کا شکر ادا کریں اور تمام اعضاء و جوارح خدا کی بندگی اور عبادت کریں اور ظاہری و باطنی دونوں لحاظ سے خدا کی بندگی کا حق ادا کریں اور منعم کی مخالفت اور نافرمانی سے بچیں، کیونکہ انسان خدا کی بندگی کرے، تعریف و تمجید کرے لیکن اس کی نافرمانیوں اور مخالفتوں سے باز نہ آئے پھر بھی شکر کا حق ادا نہ ہوا۔ شکر اپنے دو پہلو کے ساتھ عملی ہو۔


منعم کی تعظیم اور اس کی تعریف فطری جذبہ ہے خدا نے اپنے قلم قدرت سے تمام بنی نوع انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور اس میں سارے انسان برابر کے شریک ہیں۔ کاش انسان، خدا کی معرفت رکہتا اور اس کی نعمتوں کی قدردانی کرتا اور اس کی صفت پر غور و فکر کرتا تو ایک آن کے لئے بھی اپنے خالق و منعم سے غافل نہ ہوتا۔