دشمن کا مقابلہ کرنے کے اصول

چھٹا اصول: ملت کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھنے کا طریقہ

عوام کی نہ فقط ایک طریقے سے بلکہ کئی طریقوں سے راہنمائی کی

ID: 50812 | Date: 2017/12/14

مختلف تحریکوں اور گروہوں کے سربراہوں نے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے مختلف طریقہ کار اپنائے ہیں، ظالم طاغوتی حکومتوں سے مقابلے کے لئے بعض افراد اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف عوام کو بیدار کردیا جائے، لیکن کچھ کہتے ہیں کہ نہیں صرف بیداری ہی کافی نہیں بلکہ طاغوت کا مقابلہ میدان میں آکر بھی کیا جائے اور اسی طرح بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ نہیں صرف میڈیا اور عالمی ہیومین رائٹس کی تنظیموں کے ذریعے یہ مقابلہ کیا جائے۔


لیکن امام (رح) کا طریقہ کار اپنی ملت کو بیار کرنے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کا بہت عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے صرف ایک شیوہ یعنی "عوام کے ساتھ رابطے میں ہونا" کو استعمال کیا اور وہ بھی اتنے سادہ انداز میں که جس کی حد نہیں اور وہی ایک ہی طریقہ کامیاب ثابت کرکے دکھایا، اس کے باوجود کہ امام (رح)کو ملک بدر کیا گیا، اور آپ کی بات، عوام تک پہنچنے، اور دوسری طرف سے امام (رح) عراقی حکومت کی حمایت کو حاصل کرنے پر تیار نہیں تھے، اور خود سیدھے شاہ ایران سے لڑرہے تھے، اور اس کے ساتھ ساتھ، کچھ اور عراقی خونخوار تنظیمیوں کا بھی مقابلہ کر رهے تھے۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ ساتھ حوزہ علمیہ نجف پر حاکم خانقاہی فضا اور کم عقل اور سادہ لوح مولویوں کے ساتھ مقابلہ ، ان تمام باتوں نے امام (رح) کا رابطہ عوام سے کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود، امام (رح) اس کوشش میں کامیاب رہے کہ وہ اپنا رابطہ، عوام سے برقرار رکھیں، اور انہیں بیدار کرنے کی مہم کو آگےبڑھاتے رہیں۔


آپ (رح) نے اپنی تحریک اور عوام کی نہ فقط ایک طریقے سے بلکہ کئی طریقوں سے راہنمائی کی۔ جن میں سے، یہاں پر صرف چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے:


- تقریریں


جب سخت حالات اور حساس حالات میں، ملت کو امام (رح) کی تقریر کی ضرورت ہوتی تھی تو اس وقت آپ ایک جوش و جذبہ والی عقلی اور مطقی تقریر کیا کرتے کہ جس سے شاہ اور اس کے نوکر پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ آپ کی تقریر ریکارڈ کرکے ایران میں بھیجی جاتی تھیں اور پھر وہ پوری ایرانی قوم کو سنائی جاتیں اور ایک شخص دوسرا شخص سے لے کر سنا کرتا تھا۔


- اعلانات کو ہر جگہ پہنچانا


جہاں پر امام (رح) کو دشمن کا سختی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو اس وقت آپ ایک اعلانیہ صادر فرماتے تھے۔ اس طرح آپ لوگوں کو مزید متحرک کیا کرتے تھے، اور شاہ کے خلاف قیام کرنے میں تشویق دلوایا کرتے تھے۔


- ایران کے علماء اور روحانیوں سے رابطہ


ایران کے اکثر علماء اور روحانی، امام (رح) کے ساتھ منظم طریقے سے خفیہ انداز میں رابطے میں تھے۔ ان افراد میں سے ہر ایک کا ایک خفیہ نام تھا، لہذا امام (رح) کے خطوط انہی ناموں پر ان کو ارسال کئے جاتے اور ادھر کی تازہ ترین خبریں، امام (رح) کو بھیجتے تھے۔


- مسافروں کے ساتھ ارتباط


بہت سے ایرانی مسافر، یورپ جانے کے بعد عراق آیا کرتے تھے، اور اسی طرح کچھ مکہ سے واپسی پر عراق میں تشریف لایا کرتے تھے۔ یہ مسافر جس طرح ممکن ہوتا، خود کو نجف پہنچاتے، اور امام سے ارتباط برقرار کرتے اور ایران کے سیاسی مسائل کے بارے میں، آپ (رح) کی رائے دریافت کرتے تھے۔


- بیرونی ممالک کے مجاہد علماء سے رابطہ


جن علماء کرام کو حضرت امام (رح) کے ساتھ جلاوطن کیا گیا تھا، انہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے وطن واپس آسکیں، لیکن یہ کہ ان میں سے ہر ایک مشہد، قم اور تہران میں اپنے اپنے روحانی اور ہم فکر افراد کے ساتھ رابطے میں تھے اور اس طرح سے وہ ایرانی قوم سے مسلسل رابطہ میں تھے۔ وہ علما بھی اس ارتباط کے ذریعے امام (رح) کے نظریات اور تازہ ترین بیانان کو اپنے ایران میں مقیم دوستوں تک پہنچایا کرتے تھے۔


- امام (رح) کا اسلامی ممالک کے علماء سے رابطہ


ایران کے علاوہ امام (رح) کے دوسرے ممالک میں بھی نمائندہ علماء موجود تھے کہ جو ایرانی عوام کی حمایت اور شاہ ایران کی مخالفت کیا کرتے تھے..۔ جن میں حجت الاسلام و المسلمین مرحوم حاج آقای مہری کویت میں، مرحوم آیت اللہ شریعت پاکستان میں اور اسی طرح افغانستان، لبنان، ہندوستان اور بحرین میں بھی آپ کے نمائندے موجود تھے کہ جو ان ممالک کے عوام تک امام (رح) کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔


- خانہ کعبہ کے حاجیوں کے نام امام(رح) کا پیغام


جو پیغامات آپ نے مکہ میں حاجیوں کے نام یا پھر امریکہ، یورپ، کینیڈا اور ہندوستان میں زیر تعلیم اسٹوڈنٹس کے نام بھیجے، یہ بات بھی امام (رح) کے تفکرات کو عوام میں منتشر کرنے کا موجب بنے اور انھوں نے امام (رح) کے حق میں فضا کو سازگار کیا۔


ان تمام کوششوں اور زحمتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملت اور علماء نے کہ جو ایران میں مو جود تھے اور جن کو ملک بدر نہیں کیا گیا تھا، انہیں اس قدر تقویت کی کہ آخر کار وہ انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے۔