باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم سے حل کیے جا سکتے ہیں: صدر روحانی

باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم سے حل کیے جا سکتے ہیں: صدر روحانی

صدر حسن روحانی نے آج نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۶۹ ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کو جنگ و خونریزی کے بجائے ترقی و توسیع کی ضرورت ہے۔

صدر حسن روحانی نے آج نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۶۹ ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کو جنگ و خونریزی کے بجائے ترقی و توسیع کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک کے غلط پالیسیوں کے باعث آج پورا خطہ دہشت گردوں کے لئے جنت کا ٹکڑا بن چکا ہے۔

صدر روحانی نے ایران کے خلاف پابندیوں کو مغربی ممالک کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا اور کہا کہ آیندہ ان پابندیوں کو جاری رکهنا اس بات کی علامت ہے کہ مغربی ممالک اپنی تسلط پسندانہ غلط پالیسیوں کو مزید جاری رکهنا چاہتے ہیں۔
صدر مملکت نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کہا کہ ہم نے اب تک ایٹمی پروگرام میں اعتماد سازی کو فروغ دینے اور مدمقابل فریق کے خدشات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور مستقبل میں بهی اپنا تعاون جاری رکهنا چاہتے ہیں۔
صدر روحانی نے کہا کہ ایرانی عوام کے حقوق کو مدنظر رکهتے ہوئے ایٹمی مسئلے کا متوازن حل نکالا جا سکتا ہے- انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دباؤ اور اقتصادی پابندیاں ہرگز مسئلے کا حل نہیں بلکہ مل بیٹه کر بات چیت اور افہام و تفہیم سے فریقین کی فتح پر مبنی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
صدر حسن روحانی نے واضح کیا کہ ایٹمی مسئلے کے حتمی حل کا یہی بہترین اور سنہری موقع ہے اور مغربی ممالک کو اس موقع سے بهرپور فائدہ اٹهانا چاہیے-
انہوں نے کہا کہ وہ سنجیدگی سے مذاکرات جاری رکهنے کے خواہاں ہیں لیکن اگر مقررہ مدت کے اندر حتمی معاہدہ طے نہ پایا تو پهر حالات کبهی بهی ماضی کی طرح نہیں ہوں گے کیونکہ پابندیوں کا نظام شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے اور ایران کے خلاف گذشتہ الزامات کو اب دہرایا نہیں جا سکتا۔
صدر روحانی نے واضح کیا کہ اس مسئلے میں کسی قسم کا ابہام موجود نہیں ہے کیونکہ ہم نے بارہا اپنے موقف کو دوہرایا ہے کہ ہم بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ایٹمی سرگرمیاں جاری رکهنا چاہتے ہیں اور این۔ پی۔ ٹی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر کوئی مطالبہ نہیں رکهتے۔
صدر حسن روحانی نے خطے میں بعض سامراجی ملکوں کے تسلط پسندانہ اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کہ بعض سامراجی طاقتیں دہشت گرد گروہوں کی مالی اور فوجی مدد کر رہے ہیں لیکن دہشت گردی کسی کے بهی حق میں نہیں ہے اور یہ خود ان کے گلے پڑ جائے گی اور اس کے برے اثرات صرف مشرق وسطیٰ پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے-
صدر مملکت نے مزید کہا کہ مشرق وسطی کےعوام خود ہی دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکهتے ہیں، لہذا بعض تسلط پسند ممالک میں خطے کے اندرونی مسائل میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے-
صدر روحانی نے کہا کہ مغربی ممالک کے غلط پالیسیوں کے باعث پورےمشرق وسطی میں بد امنی، قتل و غارت اور خوف و ہراس کی لہر پهیلی ہوئی ہے لہذا انہیں اپنی پالیسی میں تجدید نظر کرنی چاہیے اور اگر پالیسی تبدیلی نہیں آئی اور حالات مزید خراب ہوئے تو اسکی تمام تر ذمہ داری انہی ممالک کے اوپر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس وقت پوری دنیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کیا تها جب ۱۱ ستمبر کا واقعہ ابهی رونما نہیں ہوا تها، اگر دنیا کے حکمران اور عالمی تنظیمیں اس وقت ہوش کے ناخن لیتے تو آج حالات اس نہج پر نہ پہنچتے۔

ای میل کریں