نیمہ ماہ رمضان المبارک بروز ولادت باسعادت حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)، یہ آسمانی رشتہ طے پایا۔
جماران سائٹ کے مطابق ماجرا کچه اس طرح کےوقوع پذیر ہوا:
جناب لواسانی، خاندان خمینی اور ثقفی کے مشترکہ دوست نے ایک دن روح اﷲ سے کہا:
آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے جواب دیا: میری نظر میں کوئی نہیں! تو لواسانی صاحب نے جناب ثقفی کی دو بیٹیوں کے بارے میں کہا پهر خود اپنی ذمہ،انجام کار کا عہدہ لے لیا۔
امام (رہ) کی اہلیہ اس بارے میں فرماتی ہیں: منگنی کو قبول کرنے میں تقریباً و مہینہ لگ گئے، بالآخر میرے والد نے جواب دیا:
میں اپنی بیٹی کا اختیار خود اس کو اور اس کی دادی کو دے دیا، ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام کرنا نہیں چاہتا!
اس کے ساته جناب ثقفی اپنی بیٹیوں سے کہتے ہیں:
مرضی تم لوگوں کی لیکن میرا خیال ہے کہ جناب روح اﷲ ایک اچهے، پڑهے لکهے اور دیانتدار آدمی ہیں، مجهے امید ہے کہ «قدسی»خوش رہے گی۔
آخرکار محترمہ قدسی کی ضمنی رضایت کے بعد، آپ نے دروازے کے پیچهے سے روح اﷲ کو دیکها، ماں کہتی ہیں: مجهے کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ بابا جان نے کہا: میرا دل چاہتا تها کہ میرا داماد اہل علم میں سے ہو اور یہی ہوا۔
داماد کے گهر والے پہلی رمضان المبارک کو آئے اور کرائے پر مکان ڈهونڈ رہے تهے۔ طے یہ تها کہ شادی کی تقریب تہران میں ہو اور پهر قم جائیں۔ آٹه دن کے بعد گهر ملا۔ والد صاحب نے کہا:
مجهے اپنا وکیل بناؤ۔ دوسری طرف روح اﷲ نے آغا پسندیدہ کو اپنا وکیل بنایا۔ اس طرح حرم شاہ عبدالعظیم حسنی(ع) جا کر یہ آسمانی رشتہ اور عقد نکاح جاری کردیا گیا۔
بابا نے اثاثہ گهر بهیج دی جبکہ میرا مہریہ ایک ہزار تومان تها لیکن میں نے کبهی بهی مطالبہ نہیں کی۔ البتہ روح اﷲ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں وصیت فرمائی کہ قم کے گهر کا ایک حصہ، مہریہ کے عنوان سے میرا ہو۔
اس طرح اپنی یار ومددگار اور دلسوز بیوی کے ساته امام خمینی(رہ) کی مشترکہ زندگی، حیات وتکامل کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔
ہم ان دو خجستہ مناسبتوں کو تمام دوستداران اہل بیت عصمت وطہارت(ع) اور روح اللہ کے محبین کی خدمت میں دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔