امام خمینی(رح) کے سب سے بڑے اور پہلے فرزند سید مصطفی خمینی ہیں جو ۱۲ آذر ماہ ۱۳۰۹هـ ش مطابق ۲۱/رجب ۱۳۴۹هـ ق کو پیدا ہوئے۔ امام خمینی(رح)نے اپنے والد سید مصطفی خمینی کی یاد تازہ کرنے جو خمین کے غداروں کے ہاتهوں شہید ہوئے تهے اور ان کے واقعات کوزندہ رکهنے کے لئے اپنے لئے فیملی نام مصطفوی رکه لیا اور اپنے سب سے پہلے فرزند کا نام سید مصطفیٰ رکها۔
انهوں نے اپنا عہد طفولیت پرہیزگارماں اور عالم و عاقل والد کے سایہ میں گذارا ایسے گهرانے سے فیضیاب ہونا اور ایسے مذہبی اور روحانیت سے پر ماحول میں رشد و تربیت سید مصطفی کی مذہبی ، علمی اور اسلامی شخصیت کی جلوہ نمائی اور استعداد کے اظہار کرنے اور ایسے زمانہ میں ان کی مہارت اور ہوشیاری جب معاشرہ جہالت و نادانی نیز ثقافتی اور سماجی مشکلات اور مسائل سے دوچار ہو میں شایان شان کردار ادا کرتی ہے۔ سید مصطفی ۷/سال کی عمر میں قم کے مدرسہ موحدی میں گئے اور مڈل اسکول کے آخری کورس تمام کرنے یعنی ابتدائی ۶/کلاس تک قم کے اس مدرسہ اور مدرسہ باقریہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ۱۵/سال کی عمر میں طالب علمی کے میدان میں قدم رکها اور حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوگئے۔ وہ مقدماتی دورہ تمام کرنے کے فوراً بعد مرحلہ سطح میں داخل ہوگئے اور فقہ واصول کی تعلیم شروع کردی۔ انهوں نے خارج کا دورہ آیت اللہ بروجردی اور امام خمینی کے دروس میں شریک ہوکر آغاز کیا ۔ پهر آیت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد ۱۹۶۲ء میں خارج فقہ کا درس جاری رکهنے کے لئے اپنے دانشور باپ کی خدمت میں گئے اور آیت اللہ سید محمد داماد سے بهی فیضیاب ہوئے۔ انهوں نے اپنی حد درجہ ذہانت، علمی استعداد اور حوزوی تمام تحصیلات دورہ خارج میں داخل ہونے کے ۵سال بعد، ۲۷ سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے۔ انهوں نے ۲۴/سال کی عمر میں آیت اللہ شیخ مرتضی حائری کی دختر معصومہ حائری سے شادی کی کہ اس ازدواج کا نتیجہ محبوبہ، حسین اور مریم نامی تین بچے ہیں۔ سید مصطفی نے امام خمینی(رح) کی جلاوطنی کے قبل و بعد اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں بالخصوص۵جون ۱۹۶۴ء کے قیام میں قابل ذکر کردار ادا کیا اور آخرکار اس راہ میں ۱۹۷۸ء میں ۴۷/ سال کی عمر میں شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔
بسمہ تعالی
آیۃ اللہ مصطفی خمینی نے اپنے دور جوانی میں علوم عقلی و نقلی نیز اسلامی اور دینی سیاست سے خود کو آراستہ کر لیا تها۔ آپ اپنے شایان شان مقام ومنزلت تک آپ پہنچ چکے تهے۔
آپ ہمارے زمانہ کے نابغہ بلکہ نابغہ زمان تهے۔ اچهے کردار اور نیک سیرت کے مالک تهے۔ لوگوں کی شناخت میں مہارت رکهتے تهے۔ انقلاب اور اس سے متعلق رونما ہونے والے حادثات میں کافی حد تک دخیل تهے۔ امام خمینی کے بیٹے تهے بلکہ آپ خود اپنے آپ میں ایک امام تهے۔ امام بزرگوار جیسا باپ آپ کو نصیب ہوا تها۔ امام خمینی سے بیحد محبت فرماتے، اس لئے نہیں کہ باپ تهے۔ امام بهی آپ سے بے پناہ محبت فرماتے لیکن اس لئے نہیں کہ بیٹے تهے، بلکہ ان کمالات کی بنا پر یہ ایک دوسرے سے اس قدر محبت کرتے جن کے بیان کی فرصت یہاں میسر نہیں۔
آیۃ اللہ بہاء الدینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تحریر
(مجلہ حوزہ، شمارہ 16)
مشیت الہی اور جبری جلاوطنی کے سبب، امام خمینی، مولا امیر المومنین علیہ السلام کے جوار میں پہنچے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آپ نے اسلام نبوی(ص) و علوی(ع) کی تبلیغ و ترویج کی۔
دشمنوں نے امام کے ترکی جاتے وقت، آپ کے خلف صالح اور فرزند ارجمند کو بهی باپ کے ساته دیار غربت روانہ کردیا تها۔
حوزہ علمیہ نجف میں جب امام خمینی(رح) نے افاضل اور علماء کے درمیان جب "اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ" کی بحث چهیڑی تو آقا مصطفی نے "ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت" پر خاصہ کام کیا اور ایک مختصر لیکن عمیق اور دقیق کتابچہ میں استدلالی گفتگو کے ذریعہ اسلام کے سیاسی نظریات پر بحث کی۔
شہید مصطفی خمینی کا یہ ماننا ہے کہ اگر ایک فقیہ اسلامی حکومت تشکیل دے تو وہی امت کے مسائل میں حاکم قرار پائے گا اور صرف اسی کی اس بابت اطاعت کی جانی چاہئے اور دوسرے فقہاء کے لئے اس چیز میں مداخلت جائز نہیں ہوگی کہ جس سے اسلامی حکومت ضعیف و کمزور ہو جائے اور یہاں تک ممکن ہے کہ ہم دعوی کریں کہ واجبات کفائی صرف حاکم پر واجب ہیں اور دوسرے فقہاءکے لئے ان واجبات میں مداخلت ہرگز جائز نہیں ہوگی۔ (ثلاث رسائل، ولایۃ الفقیہ، ص8-77)
بشکریہ : روزنامہ جمہوری اسلامی، شمارہ 55، ص6