تیرا عاشق ہوں، نہیں ہاتھ آئے گا اب دل مرا
تیرا رخ ہی حل کرے گا عقدہ مشکل مرا
تیری کوچہ کی محبت ہی مری تخلیق میں
تیرے عشق رخ سے مخلوط آب و گل مرا
ذکر بس تیرے گل رخ کا ہے میری بزم میں
تیرا شوق وصل ہے بس مقصد و حال مرا
چاک کردے یہ حجاب نور میرے اپنے بیچ
جلوہ رخ سے ترے روشن ہو صحن دل مرا
جلوہ کر یار عزیزم! میرے کوہ قلب پر
زندہ کر موسیٰ کی صورت سے دل غافل میرا
دو جہاں کے ہر افق پراس کا رخ ہے جلوہ گر
تا کہ کردے ہر نصاب زندگی باطل مرا
موج دریا ہے یہ عالم، ساحل و دریا نہیں
قطرہ اک، تیرے نم دریا کا ہے ساحل مرا
عالم شمس و قمر سے ہوگئے یکسو، خلیل
اس کا جلوہ میں، نہ کچھ نظارہ آفل مرا