ہم عشق زادہ و متبنائے جام ہیں
جاں بازی و خیال بتاں میں تمام ہیں
دلدادہ میکدہ کے ہیں ، جاں باز نوش بھی
پیر مغاں کے در کے قدیمی غلام ہیں
ہمخواب یار ہو کے تبہ ہجر یار میں
غرق وصال ہوکے بہ ہجراں مدام ہیں
بے رنگ و بے نوا بھی ہیں ، قیدی رنگ بھی
ہم بے نشاں ہیں پھر بھی طلبگار نام ہیں
درویش سے بھی ، صوفی و عارف سے بھی ہے جنگ
پرخاش دار حکمت و علم کلام ہیں
ممنوع مدرسہ بھی ہیں ، مخلوق سے بھی دور
مہجور اہل ہوش، طرید عوام ہیں
روز ازل سے ہستی و ہستی طلب سے دور
ہمگام نیستی ہیں ، فنا میں تمام ہیں