مجاہد صحافیوں کو خراج عقیدت

مجاہد صحافیوں کو خراج عقیدت

غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کو 300 سے زائد دن گزر چکے ہیں

تحریر: سید رضا عمادی

 

غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کو 300 سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران غزہ کے عوام کے مختلف طبقوں کو شہید کیا گیا، لیکن اس نسل کشی میں جہاں بین الاقوامی شہید ہوئے، وہاں ان شہداء میں صحافی بھی شامل ہیں۔ صیہونی حکومت نے غزہ میں 300 دنوں سے زائد عرصے سے جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان جرائم اور نسل کشی کے دوران  انہوں نے کسی بھی غیر قانونی اور مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کیا۔ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کی ایک جہت 165 صحافیوں کی شہادت ہے، جنہیں بین الاقوامی قوانین اور جنگ کے ضوابط کے تحت تحفظ حاصل ہے اور انہیں خبروں اور اطلاعات کی شفاف ترسیل کے فریم ورک کے اندر جنگ میں بھی متحارب فریقوں کی جارحیت سے محفوظ رہنا چاہیئے۔

 

صیہونی حکومت کی جانب سے صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم دانستہ جرائم میں سے ایک ہے۔ صہیونی فوج غزہ سے عالمی رائے عامہ تک ابلاغ کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے جان بوجھ کر صحافیوں پر حملے کرتی ہے۔ صیہونیوں کی کوشش ہے کہ صحافیوں کی شہادتوں سے غزہ میں اس حکومت کے جرائم کے حقائق کی نشریات کو روکے۔ درحقیقت صیہونی قابضین عام لوگوں، بیماروں اور زخمیوں حتی صحافیوں میں کوئی فرق نہیں کرتے اور وہ جان بوجھ کر صحافیوں کو قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں، کیونکہ وہ غزہ کے حقائق کو عالمی رائے عامہ تک پہنچانے سے ڈرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان صحافیوں کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کی آواز دنیا میں سنی جا رہی ہے۔

 

وہ صحافی جو غزہ میں تاریخ کے ایک بے مثال جرم کو بیان کرنے کے لیے موجود تھے، تاکہ مشکل ترین حالات میں شہید ہونے والے مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچا سکیں، انہیں صیہونیوں کے جرم کا سامنا کرنا پڑا۔ بین الاقوامی انسانی قانون (12 اگست 1949ء کے جنیوا کنونشنز اور اضافی پروٹوکول) کے تحت جنگ کے دوران صحافیوں اور شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک جنگی جرم ہے اور صحافیوں کو بغیر کسی مداخلت کے اپنے کام کو انجام دینے کی آزادی اور تحفظ کی اجازت ہونی چاہیئے۔ صہیونیوں کی طرف سے صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے جرم اور غزہ میں نسل کشی کی کوریج کی روک تھام عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا باعث بنی ہے۔

 

تاہم صحافیوں اور میڈیا سینٹرز کو نشانہ بنانے کے خلاف عالمی برادری کے احتجاج کے جواب میں صیہونی حکومت کی فوج نے پوری ڈھٹائی سے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں کام کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے نامہ نگاروں کے شہداء تاریخ کے صحیح سمت میں کھڑے ہیں اور ان کا خون غزہ کے عوام کی مظلومیت کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کے لیے ان کے قلم کی سیاہی بن چکا ہے۔ یہ صحافی موت اور مارے جانے سے نہیں ڈرتے۔ غزہ میں شہید ہونے والے صحافی میڈیا کے ہیرو ہیں، وہ ہیرو جنہوں نے مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کے اپنے اہم مشن کے لیے جان بھی قربان کر دی ہے۔

 

غزہ میں رہنے والے ایک رپورٹر محمود بسام کا کہنا ہے: "اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہم غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے دوران شہید ہو جائیں گے، ہم اپنا فرض ادا کرتے رہے۔ بہت کم سہولیات کے باوجود جن میں بلٹ پروف جیکٹوں کی کمی بھی شامل ہے۔ ہم خطرناک علاقوں میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ بلاشبہ، بلٹ پروف واسکٹ صحافیوں کو موجودہ خطرات سے محفوظ نہیں رکھ سکتی، کیونکہ شہید سعید الطویل اور دیگر کئی صحافی مخصوص جیکٹوں کو پہننے کے باوجود صیہونی فوجیوں کی گولیوں سے شہید ہوئے تھے۔

ای میل کریں