عقدہ ہے دل میں، عقدہ کشا چاہتا ہوں میں
رکھتا ہوں درد روح، دوا چاہتا ہوں میں
دیکھا ہے طور کو، نہ تمنائے دید ہے
ہاں طور دل میں اک خط پا چاہتا ہوں میں
میں صوفی صفی رہ عشق تو نہیں
ہمّت سے پیر رہ کی، صفا چاہتا ہوں میں
درویش سے نہ دوست وفا کر سکے اگر
پھر بات صاف ہے کہ جفا چاہتا ہوں میں
اے دلبر جمال! اٹھا چہرے سے نقاب
تاریکیوں میں راہنما چاہتا ہوں میں
اے صید ذات! نرغہ پندار سے نکل
ہوجانا قید خود سے رہا چاہتا ہوں میں
تو میری روح میں ہے، پر آتا نہیں نظر
کنز عیاں میں کنز جفا چاہتا ہوں میں
میں ڈوبتا ہوں ، بند کرو یہ کتاب عشق
اک دست ناخدا بخدا چاہتا ہوں میں