شب وصل

شب وصل

دیوان امام خمینی (رح)

ہے آج سر مرا آغوش ماہ تاباں  میں

ہو جو بھی کچھ ہو، مجھے کیا، جہان امکاں  میں

پکڑ لے دامن خورشید کو ذرا اے صبح!

سر اپنا چاند نے رکھا ہے میرے داماں  میں

پئے لبوں  سے بہت جام ہائے آب حیات

لگی ہے آگ مگر اب بھی قلب حیراں  میں

نہ جانے عشق میں  کیا ہے کہ میں  پریشاں  ہوں

رکھا ہے لاکھ سر یار میرے داماں  میں

یہ صبح ہجر کا غم ہے کہ نغمہ شب وصل

کہ بانگ صبح ہے میرے لب غزلخواں میں

شب وصال جو بڑھ کر ہزار سال بنے

ہزار باب کھلیں  داستان جاناں  میں

سنا کسی کو نہ '' ہندی'' فسانہ شب وصل

یہ خار بن کے نہ کھٹکے دل حریفاں  میں

ای میل کریں