میکدہ میں، میں کروں کیا، جو نہ فریاد کروں
ہجر رخ میں ترے کس سے طلب داد کروں ؟
اپنی محفل میں تو رندی نہیں داد و بیداد
کس سے لوں داد، کہاں شکوہ بیداد کروں
غم، خوشی، جور و جفا جس نے عطا کی مجھ کو
با صفا اس کا ادا شکریہ داد کروں
تیرا عاشق ہوں ، ترا عاشق رخ ہوں تو نہ کیوں
وصل و ہجراں کا تحمل بہ دل شاد کروں
جور مجنوں گل وحشی! ترے غم میں سہہ لوں
میرے خسرو! میں سہن تیشہ فرہاد کروں
تو مرے ساتھ ہے اور مرتا ہوں میں تیرے بغیر
راز نو ہے یہ، اسے ہدیہ استاد کروں
حادثے آتے ہیں اور سال گزر جاتے ہیں
انتظار فرج از نیمہ خرداد کروں