بہار آئی، شباب رفتہ کی جاکر خبر لے لوں
کنار یار پاؤں، زندگانی سے ثمر لے لوں
چمن میں لوٹ جاؤں، پھر گل و گلبن سے مل جاؤں
کنار بوستاں میں یار کا بانہوں میں سر لے لوں
خزاں آنے کا غم پل بھر نہ اپنے دل میں آنے دوں
کہ اس گلزار جاں میں اپنے گلرو کی خبر لے لوں
فراق وصل دلبر نے کیا بے بال و پر مجھ کو
بیاد وصل دلبر فصل گل میں بال و پر لے لوں
خزاں کا دور تھا، بیٹھا رہا میں اس خرابے میں
بہار آئی ہے، بہر وصل اب بار سفر لے لوں
سوئے عشاق مے ساقی جس ساغر سے چھلکائی
ادھر چھلکے تو میں ہاتھوں میں اپنے اس کا سر لے لوں