یہود دشمنی میں اضافہ

یہود دشمنی میں اضافہ

فلسطینیوں کے خلاف یورپی حکام کے سخت موقف کا تسلسل اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف مغربی معاشروں کے تمام آزادی پسند نعروں کے برعکس دوہرا موقف دنیا میں نسلی اور مذہبی تفریق کو پھیلانے کا سبب بنا ہے

تحریر: اتوسا دیناریان

 

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں شدت اور صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کے باشندوں کی نسل کشی کے باوجود مغربی ممالک کی اسرائیل نواز پالیسیوں اور کھلی حمایت کی وجہ سے دنیا میں یہود دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایک خط میں یہود دشمنی میں اضافے کی مذمت کی ہے اور اپنے ملک میں یہود مخالف اقدامات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ دنیا میں یہود دشمنی کے پھیلاؤ کی وجہ سے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کو کھلے عام اعلان کرنا پڑا کہ ہم نہیں چاہتے کہ عالمی برادری ہم پر تنقید کرے، بلکہ ہم ان سے حمایت چاہتے ہیں۔

 

اگرچہ شروع ہی سے یورپی ممالک کے حکام نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے صیہونی حکومت کی فلسطینیوں کے خلاف جبر اور قتل و غارت گری کی پالیسی کو اسرائیل کا حق سمجھا اور تل ابیب کی حمایت کرتے ہوئے فلسطین کے حامیوں کو دھمکیاں اور سزائیں دیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے قتل عام نے یورپ اور امریکہ میں بہت سے لوگوں کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی پالیسیوں کی مذمت کرنے پر مجبور کر دیا اور عوام نے فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اہتمام کیا ہے۔

 

فلسطینیوں کے خلاف یورپی حکام کے سخت موقف کا تسلسل اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف مغربی معاشروں کے تمام آزادی پسند نعروں کے برعکس دوہرا موقف دنیا میں نسلی اور مذہبی تفریق کو پھیلانے کا سبب بنا ہے۔ شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق فرانس میں 7 اکتوبر سے اب تک 1,100 سے زیادہ یہود مخالف کارروائیاں ریکارڈ کی گئی ہیں، جو میکرون کے مطابق، گذشتہ  سال کے مقابلے میں تین گنا اضافہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولٹز نے کہا کہ وہ اپنے ملک میں یہود مخالف واقعات کی حالیہ لہر سے "شرمندہ اور مشتعل" ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان کی حکومت یہودیوں کے خلاف ایسی نفرت کو برداشت نہیں کرے گی۔

 

درحقیقت حالیہ ہفتوں میں مغربی ممالک نے اسرائیل کے لیے اپنی پالیسیوں اور حمایت سے دنیا کے لوگوں کو دکھا دیا ہے کہ وہ آزادی کے معاملے پر اپنے نعروں پر قائم نہیں رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اظہار کے ان دعوے داروں نے فلسطین کا دفاع کرنے والے ادیبوں اور صحافیوں کو بھی دیوار سے لگا دیا ہے۔ اس پالیسی نے مغربی معاشرے کے عوام میں غصہ پیدا کر دیا ہے۔ فرانس سمیت بیشتر یورپی ممالک کے قوانین کے مطابق رنگ و نسل، مذہب، عمر، زبان اور اس طرح کی کسی دوسری وجہ سے کسیکو حقوق حاصل نہیں ہیں بلکہ ہر شہری کو سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق حاصل ہیں اور ان حقوق سے محروم کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن مغربی ممالک کی موجودہ حقیقت یہ بتاتی ہے کہ یہ قوانین زیادہ تر کاغذوں پر ہی رہ گئے ہیں اور اب اعداد و شمار نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ میں نسلی اور مذہبی تفریق میں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔‘‘

 

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اس وقت یہود دشمنی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ تمام باضمیر افراد صیہونی حکومت کی مذمت کر رہے ہیں، جبکہ یورپی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسرائیل کی قتل و غارت گری کی پالیسیوں کا دفاع جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ عالمی رائے عامہ نہ صرف اس معاملے کو قبول نہیں کر رہی بلکہ نام نہاد آزادی پسندوں اور انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبرداروں کے خلاف عوامی غم و غصہ بڑھ رہا ہے، اس غم و غصہ کی وجہ سے مذاہب اور اقوام و نسلوں کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوا ہے، جو درحقیقت عوامی سلامتی کو درہم برہم کرکے رکھ دے گا۔

 

البتہ اس عمل نے مغربی معاشروں کے نعروں کا کھوکھلا پن مزید واضح کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں تہذیبوں کے اتحاد کے نمائندے "میگوئل موراتینوس" نے حال ہی میں مذہب، مقدس کتب، عبادت گاہوں اور مذہبی علامات کی بے حرمتی کے خلاف خبردار کیا اور کہا ہے کہ یہ اقدامات مذہبی تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کی غلط پالیسیوں نے مسائل کو بڑھا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف کمیونٹیز کے غم و غصہ میں شدت آرہی ہے۔

ای میل کریں