مرا رخ تو دیکھ دم بھر، نہیں رخ یہ گہر با ہے
کہ نگاہ میرے دل کی سوئے یار دلبر با ہے
مرے ہونٹ آشنائے مئے عشق ہوچکے ہیں
خم میکدہ سے میرا ازلی معاہدہ ہے
مجھے زہد و عقل سے دی ترے عشق نے رہائی
مجھے اب نہ شوق مسجد، نہ خیال مدرسہ ہے
بڑا حوصلہ دیا ہے مجھے بندگی مے نے
کہ ہر ایک شے سے تاباں مرا قلب با صفا ہے
یہ نسیم عشق! کہدے ذرا یار دلربا سے
مرا حال دل تو دیکھے، مرا درد بے دوا ہے
خم و ساقی و سبو میں ، ہیں ہزاروں راز مخفی
یہ پتہ ملا جہاں سے وہ حریم کبریا ہے
مرے دل میں جام جم ہے، نہ ہی مسند سلیماں
کہ مزاج خسروانہ مجھے حق سے مل گیا ہے