ہر طرف تجھ کو پکارا، پہ صدا کیا آتی
کہیں بت تھے کہیں بتخانہ ہوا کیا آتی
غلغلہ ہے ترا آفاق میں ، لیکن اک میں
گوش شنوا ہی نہ رکھتا تھا، صدا کیا آتی
بحر ذخار و خروشاں ہی سہی یہ دنیا
حلق تک میرے کوئی بوند بھلا کیا آتی
سب سوئے کعبہ گئے اور مری قسمت میں
کوئی شے گردش قسمت کے سوا کیا آتی
خرقہ کہنہ گئے چھوڑ کے غیر، اور مجھے
عقل اس خرقہ کو گھسنے کے سوا کیاآتی
پل سے دلباختہ سب پار ہوئے اور مجھے
کوئی تدبیر پلٹنے کے سوا کیا آتی
اڑگئے سب تو قفس توڑ کے اور میں خود پر
تار تنتا رہا، اب اور بلا کیا آتی
گرچلا جاتا میں اس لانہ گندیدہ سے
لاج یاران حسد پیشہ کو کیا آتی