میں نے سوچا تھا کہ ہوجاؤں میں آدم ، نہ ہوا
رہوں میں بے خبر حال دو عالم، نہ ہوا
خم کروں سر کو در پیر خرابات پہ میں
تا کہ ہوجاؤں میں اس حلقہ کا محرم، نہ ہوا
گھر یہ محبوب کو دوں '' خود'' سے میں ہجرت کر جاؤں
تا کہ اسماء کا ہو جاؤں کا ہو جاؤں معلم ، نہ ہوا
دوست کے ہاتھ سے شب بھر میں پیوں بادہ عشق
دل میں لاؤں نہ غم کوثر و زمزم ، نہ ہوا
بے خبر خود سے رہوں ، والہ رخسار حبیب
سر و پا گوش رہوں اور سر و پا ہوش رہوں
راہ اک سوئے فنا مجھ کو صفا سے مل جائے
اس طرح ہو کے رہوں روح مجسم، نہ ہوا
کہ رہوں تیرے دم گرم سے ملہم، نہ ہوا
تا کہ کہلاؤں وفادار مسلم، نہ ہوا
کعبہ دل سے ہر اک بت کو نکالوں باہر
تا رہوں دوست کی نظروں میں مکرم ، نہ ہوا
دفن سب آرزوئیں ہوگئیں اے نفس خبیث!
میں نے چاہاتھا کہ ہو جاؤں میں آدم ، نہ ہوا