در میخانہ پہ جویائے اماں آیا ہوں
مکر صوفی سے میں گھبرا کے یہاں آیا ہوں
بند کردے یہ در مدرسہ اے شیخ! کہ میں
تیری باتوں سے بہت تنگ یہاں آیا ہوں
کھول اے پیر! سرخم کہ تری ڈیوڑھی پر
خوشدل و رقص کناں ، دست فشاں آیا ہوں
تیرا غمزہ ہی جو کھولے تو کھلے دل کی گرہ
تیرے گھر بادل بے تاب و تواں آیا ہوں
خانہ یار تو ہر جا ہے کہ ہر جاہے وہ
کعبے کیوں ، چھوڑ کے درگاہ بتاں ، آیا ہوں
راز بتلا، یہ گرہ کھول، معما حل کر
دشت پر ہول میں بے تاب و تواں آیا ہوں
'' ہیچ'' سے سوئے '' ہمہ'' کوچ ہے میری منزل
بوالہوس ہوں تو پئے گنج نہاں آیا ہوں