حضرت فاطمہ زہرا س امت کی شافع ہیں
امام جعفر صادق (ع)سے روایت ہے کہ ایک دن جناب فاطمہ نے رسول خدا (ص) سے پوچھا کہ اے بابا میں قیامت کے دن آپ سے کہاں ملاقات کروں گی ؟تو آپ نے فرمایا فاطمہ تم مجھے بہشت کے قریب دیکھو گی میرے ہاتھوں میں لوائے حمد ہو گا۔
اور میں اپنے پروردگار سے اپنی امت کی شفاعت کرؤں گا ۔انہوں نے کہا ۔بابا۔ اگر میں نے آپ کو وہاں نہ پایا تو کہاں تلاش کرؤں ۔تو حضور اکرم نے فرمایا ۔صراط کے پاس ۔انہوں نے کہا اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر میں کیا کرؤں ؟۔آپ نے فرمایا تو پھر مجھے میزان کے پاس ملنا جہاں میں کھڑا ہوں گا اور کہوں گا ۔خدایا میری امت کو محفوظ رکھ ۔انہوں نے کہا اگر وہاں بھی آپ کو نہ پایا تو؟ آنحضرت نے فرمایا پھر مجھے جہنم کے کنارے ملنا جہاں میں کھڑا ہوں گا اور اس کے شعلوں اور آگ کی لپٹوں سے اپنی امت کو بچا رہا ہوں گا ۔جب جناب سیدہؑ کومعلوم ہوا کہ میرے بابا جہنم کے کنارے کھڑے ہوکر ہمارے ماننے والوں کی شفاعت کریں گے تو جناب سیدہ بہت خوش ہوئیں فضائل الزہرا ص۶۱۲۔
شفاعت کا حقیقی معنی کسی ایسے شخص کے لئے بخشش کی دعا کرنا ہے ۔جو سزا کا مستحق ہو ۔البتہ مجازی طور پر اپنے منافع کو حاصل کرنے کی درخواست کرنے کے بارے میں بھی استعمال ہوا ہے ۔اس کے حقیقی معنی یعنی مجرم سے سزا کے بر طرف ہونے کی درخواست کے بارے میں علماء کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے جیسا کہ شیخ طوسی فرماتے ہیں ۔ہمارے عقیدہ کے مطابق پیغمبر اکرم (ص)مومنین کی شفاعت کریں گے ۔نیز خدا وند متعال بھی ان کی شفاعت کو قبول کرے گا جس کے نتیجہ میں اہل نماز گنا گاروں سے عذاب بر طرف کر دیا جائے گا ایک دن جناب سلمان نے حضرت پیغمبر سے عرض کی !مولا:آپ کو خدا کا واسطہ آپ مجھَ قیامت میں حضرت فاطمہ کے مقام ومنزلت سے آگاہ فرمائیں
تو پیغمبرص نے میری طرف مسکراتے ہوئے کہا ۔خدا کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ۔قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا (س)ایک اونٹ پر سوار ہو کر محشر کے بیچ سے گزریں گی ۔اس اونٹ پر نورانی ہودج ہو گا ۔ہودج کے اندر انسانی شکل میں حور صفت اور عظیم المرتبت خاتون ہو گی ۔جبرائیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف ہوں گے ۔حضرت علی ؑ آگے اور حضرت امام حسن وامام حسین (ع) ان کے پیچھے ہوں گے ۔جب وہ اہل محشر کے بیچ سے گزریں گی تو خدا کی طرف سے ندا آئے گی ۔اے لوگو۔اپنی آنکھیں بند کر لو ۔اور اپنے سروں کو جھکا لو ۔یہ فاطمہ (س)تمہارے پیغمبر کی بیٹی علی (ع)کی زوجہ اور حسن وحسین (ع) کی مادر گرامی ہیں ۔پس حضرت فاطمہ (س)پل صراط سے گزریں گی ۔اس وقت آپ جنت اور جو کچھ خدا وند عالم نے آپ کے لئے آمادہ کیا ہے اسے دیکھیں گی اور کہیں گی ۔خدائے مہربان کے نام سے شروع کرتی ہوں حمد وثناء ہے اس خدا کے لئے جس نے ہمارے غم واندوہ کو دور کیا ۔ہمارا خدا بخشنے والا اور شکر کرنے والوں کا قدر داں ہے ۔وہ خدا جس نے اپنے فضل سے ایسا بلند مقام حاصل کیا ۔جس تک کوئی گرد نہیں پہنچ سکتی خدا وند عالم ان پر وحی فرمائے گا ۔اے فاطمہ ۔اگر کوئی حاجت ہے تو بیان کرؤ ۔فاطمہ (س)عرض کریں گی ۔خدایا میں تیرا تقرب چاہتی ہوں ۔خدایا میری طرف سے عرض یہ ہے کہ میرے محبوں اور میرے اہل بیت کے محبوں پر عذاب مت کر ۔
خدا وند عالم وحی فرمائے گا۔ اے فاطمہ ۔اپنی وجلال کی قسم مجھے اپنی خدائِ کی قسم میں نے زمین وآسمان کو پیدا کرنے سے دو سال پہلے خود سے یہ عہد کیا تھا ۔کہ تمہارے اور تمہارے فرزندوں کے شیعوں پر عذاب نہیں کرؤں گا :بحار الانوار ج۲۷۔ص۱۳۹ از کنز جامع القوائد وتاویل الآیات الظاہرات جناب فاطمہ (س)کے بہت سے القابات ہیں ان القابات میں سے ایک لقب ہے منصورہ " منصور کا مطلب ہے مدد کرنے والی قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا (س)اپنے محبوں کی مدد فرمائیں گی اور اگر آپ نے ہم ضرورت مند اور محتاجوں کا ہاتھ نہیں پکڑا ہم کس طرح آتش جہنم سے نجات پائیں گے ؟
منصورہ اسم مفعول ہے جو اسم فاعل کے معنی میں ہے۔یعنی حضرت فاطمہ زہرا (س)ہمیشہ اپنے محبوں اور پیروی کرنے والوں کی مدد فرمائیں گی ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س)کے چاہنے والوں کے لئے آپ کے نام فاطمہ کی بہترین تفسیر وہ روایت ہے ۔جو ان کے جہنم سے نجات پانے کی گواہی دیتی ہے حضرت امام رضا ؑ اپنے آباءو اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ۔اے فاطمہ!کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا ؟تو حضرت علیُ نے سوال کیا :فاطمہ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا ؟تو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:
لانھا فطمت ھی وشیعتھا من النار :کیوں کہ فاطمہ (س)اور ان کے چاہنے والے آتش جہنم سے نجات پائِں گے [1]
حضرت امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :قیامت کے دن حضرت فاطمہ زہرا (س)دوزخ کے دروازہ پر کھڑی ہو جائیں گی ۔ہر شخص کی پیشانی پر لکھا ہو گا ۔کہ صاحب ایمان ہے یا کافر ہے ۔اس وقت حضرت فاطمہ زہرا (س)کے گناہ گاروں سے کہا جائے گا کہ تم جہنم کی طرف بڑھو ۔حضرت فاطمہ زہرا (س)دیکھیں گی کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے ۔"محب زہرا (س)"اس وقت حضرت فاطمہ زہرا (س)بار گاہ خدا میں عرض کریں گی :الھی وسیدی وسمیتی فاطمۃ وعظمت بی من تولانی وتولی ذریتی من النار ووعدک الحق وانت لا تخلف المیعاد
خدایا! تو نے میرا نام فاطمہ رکھا اور فرمایا۔تیری وجہ سے تیرے محبوں اور تیری ذریت کے محبوں کو آتش جہنم سے نجات دوں گا تیرا وعدہ ہمیشہ بر حق رہا اور تو نے کبھی بھی وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کی۔خدا وند عالم فرمائے گا ۔صدقت یا فاطمۃ انی سمیتک فاطمۃ :وفطمت بک من احبک وتولاک واحب ذریتک وتولا ھم من النار وعدی الحق وانا
لا اخلف المیعاد وانما امرت بعبدی ھذا الی النار لتشفعی فیہ فاشفعک لتبین لملائکتی وانبیائی ورسلی واہل المواقف موقفک منی ومکانتک عندی فمن قرات بین عینیہ مومنا فجزبت بیدہ وادخلتہ الجنۃ :
اے فاطمہ۔تم سچ کہہ رہی ہو میں نے تمہارا نام فاطمہ رکھا اور جو شخص بھی تمہیں یا تمہارے فرزندوں کو دوست رکھے گا ۔اسے آتش جہنم سے نجات دوں گا ۔میرا وعدہ سچا ہے ۔اور میں اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔میں نے اپنے بندہ کو جہنم کی طرف بھیجا ہے ۔تا کہ تم اس کی شفاعت کرو اور میں تمہاری شفاعت قبول کرؤں تا کہ فرشتے اور انبیاء اور محشر کا ہر ایک شخص تمہارے مرتبہ کو میرے نزدیک دیکھے پس جو بھی مومن اور تمہارا محب ہو اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کر لو۔