اک جام پی لے اور در ساقی پہ شاد ہو
توفیق جس نے دی وہ فرشتہ جو یاد ہو
تیشہ نہیں ہے کوہ کنی کو تو کیا ہوا؟
فرہاد عشق یار میں بن اور شاد ہو
جا حلقہ غلامی رنداں کر اختیار
فرماں روائے عالم کون و فساد ہو
رہ پیچ وتاب گیسوئے ساقی میں نغمہ خواں
پرچم کسائے مستی و رندی نہاد ہو
شاگرد پیر میکدہ بن، فن عشق میں
رندی سکھا زمانے کو اور اوستاد ہو
سرمست عشق مفت نہ لیں منصب و مقام
تو خسرو زمانہ ہو یا کیقباد ہو
فرزند دلپذیر خرابات اگر ہے تو
ہرگز نہ ملک قیصر و کسریٰ پہ شاد ہو