امام خمینی(رح) کی نظر میں نفسانی قوتوں میں فرق کی وجہ
ہم نے کہا ہے کہ مسئلہ اس طرح نہیں اور فرق کی حکمت بھی یہ نہیں ۔ فرق کی وجہ یہ ہے کہ عالم طبیعت میں وحدت کی صلاحیت نہیں تھی۔ عالم طبیعت کی فطرت میں یہ ہے کہ کثرات اور جدائیاں ہوں ۔ یہ عالم اس طرح ہے کہ یہاں اصلاً وحدت وقوع پذیر نہیں ہوسکتی۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ {النفس في وحدتھا کلّ القویٰ} (نفس اپنی وحدت میں ساری قوتیں رکھتا ہے) اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ پہلے نفس پیدا ہوا پھر اس کے شعبے تشکیل دیئے گئے ہوں اور یہ شعبے پہلے وحدت رکھتے تھے بعد میں اس طرح شعبوں میں بٹ گئے ہوں ۔ یہ معنی نزولی سیر میں ہے لیکن صعودی سیر میں یہ حواس ابتدا میں آہستہ آہستہ وجود میں آئے ہیں اور پھر جب عالم تجرد کی طرف رخ کرتے ہیں تو ایک عرصے کے بعد تجرد کا ایک مرتبہ پاتے ہیں کہ تدریجاً وحدت میں شدت آجاتی ہے یہاں تک کہ جب وحدت کامل ہوجاتی ہے تو تجرد کامل ہوجاتا ہے اور تجرد کا کامل ہونا دراصل اس عالم سے باہر نکلنا ہے۔
ایسا ہی تسامح ادھر بھی کیاگیا ہے جہاں پر عقل کو عقل ہیولانی اور غیر ہیولانی میں تقسیم کیا ہے۔ اس تقسیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عقل کوئی اور مجرد تھا، بلکہ یہی جوہر جو ابتدا میں ہی نورانیت کی طرف رخ کرتا ہے مرتبہ بہ مرتبہ نورانی ہوجاتا ہے۔ جب یہ جوہر خیالی نورانیت تک پہنچے تو عقل کا مادہ ہے اور عقل کا ہیولا عقل بننے کے قابل ہوتا ہے، البتہ خود عقل کے بھی رتبے ہیں جن میں عقل تقسیم ہوجاتی ہے لیکن یہ تقسیم عقل کے جوہری مراتب کی تقسیم ہے اس کے عوارض کی حیثیت سے نہیں۔
فی الجملہ؛ وہ عقل جو آغاز میں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے وہ کمزور ہے۔ جیسے شمع کے پانچ درجے ہوں۔ یہ مرتبہ دس درجے کے مرتبے کا مادہ اور ہیولا ہے۔ ان مراتب میں عقل غیر سے ملی ہوئی ہے اور ابھی خالص عقلانی وجود نہیں بنی، بلکہ ایک ملاوٹ ہے۔ جب آدمی تدریجاً حرکت کرتا ہے اور اس حرکت میں وہ رحمانی تربیت کے ماتحت رہے تو یہ عقلی جوہر رحمانی ہوجاتا ہے اور جب اس ملاوٹ سے خارج ہوجاتا ہے تو یہ ایک عقلانی ورحمانی موجود بن جاتا ہے لیکن اگر شیطانی تربیت کے ماتحت رہے تو یہ ایک عقلانی شیطانی موجود بن جاتا ہے۔
(تقریرات فلسفہ، ج ۳، ص ۷۲)