اسلامی معاشرے میں اتحاد کی ضرورت

اسلامی معاشرے میں اتحاد کی ضرورت

اسلامی انقلاب کی کامیابی جو ملت اور اس کے طبقات اور قبیلوں کے اتحاد کے سائے میں ہوئی؛ نے مسلم اقوام کے اتحاد کا ذریعہ فراہم کیا

اسلامی معاشرے میں اتحاد کی ضرورت

 

تحریر: علی رضا شریفی

 

ہم ہفتہ وحدت اور اسلام کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی با سعادت ولادت کے موقع پر ہیں۔ وہ پیغمبر جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے علمبردار تھے اور ہمیشہ وحدت پر زور دیتے تھے اور آپ کے ماننے والے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اتحاد کی ضرورت کو سمجھیں اور اتحاد کے لئے مزید کوشش کریں۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی جو ملت اور اس کے طبقات اور قبیلوں کے اتحاد کے سائے میں ہوئی؛ نے مسلم اقوام کے اتحاد کا ذریعہ فراہم کیا۔ یہ اتحاد غاصبوں اور استعمار کے ظلم و تسلط کے خلاف اسلامی تحریک کی شکل میں انقلاب اسلامی کی فتح کا باعث بنا۔ اس وحدت کے بدلنے میں سامراج نے اسلامی اقوام کے بڑھتے ہوئے اتحاد کو دو طریقوں سے روکنے کی کوشش کی: 1)نسلی اور قبائلی تعصب یا قوم پرستی کو تقویت دینا۔ 2)فرقہ وارانہ (شیعہ اور سنی) تعصبات کو ہوا دینا۔

امام خمینی (رح) نے اس معاندانہ پالیسی کے جواب میں فرمایا: قوم پرستی سے زیادہ خطرناک اور افسوسناک بات، شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات پیدا کرنا اور فتنہ انگیز پروپیگنڈے کو ہوا دینا اور اسلامی بھائیوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنا ہے۔ بحمدالله تعالی، اسلامی انقلاب میں دونوں مذاہب میں کوئی فرق نہیں ہے اور سب مل جل کر دوستی اور بھائی چارہ گی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اہلسنت، جن کی آبادی ایران میں کافی ہے، اور جو ملک کے اندر اور ارد گرد رہتے ہیں اور بہت سے علماء اور شیوخ ان میں ہیں، ہم ان کے ساتھ بھائی اور برابر ہیں، اور وہ ان منافقانہ نعروں  کے خلاف ہیں جو صیہونسٹ اور امریکہ کے مجرموں نے لگائے ہیں۔

بنابرایں، 1981ء میں، آیت اللہ منتظری نے اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے وزیر ارشاد کے نام ایک خط میں، مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے 12 ربیع الاول (سنی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کا دن) اور 17 ربیع الاول (شیعہ روایات کے مطابق پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کا دن) کے درمیان ایام کو ہفتہ وحدت کا نام دینے کا مشوره دیا۔ اس کے بعد امام خمینی (رح) نے 8/ جنوری 1982ء کو ایک تقریر میں ان کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اصطلاح استعمال کی۔ آپ نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں فرمایا: ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم سب ایک ساتھ رہیں، ہفتہ وحدت منائیں۔ ہمارا دین ایک ہے، ہمارا قرآن ایک ہے، ہمارا نبی ایک ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کی ایک تجویز پہلے بھی موجود ہے۔  1978ء میں آیت اللہ خامنہ ای نے جب وہ صوبہ سیستان و بلوچستان میں جلاوطنی میں تھے تو اس علاقے کے سنی علماء کو تجویز پیش کی کہ 12 ربیع الاول اور 17 ربیع الاوّل کے درمیان تقریبات منعقد کی جائیں۔

شیعہ اور سنی اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ اختلافی مسائل کو ایک طرف رکھ کر مشترکات پر عمل کیا جائے اور اسی بنیاد پر عالم اسلام اور بین الاقوامی سطح پر متعلقہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور تعامل کیا جائے تا کہ مسلمان اختلافات سے بالاتر ہو کر اور عالم اسلام کے مسائل میں تفرقہ سے بچ کر ایک ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ بالفاظ دیگر اختلافات، اسلامی اخوت اور دشمنوں کے خلاف مسلم صفوں کے اتحاد کو نہیں روک سکتے، اسی لیے شیعہ اور سنی کے اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے اصولوں اور عقائد کو ترک کردیں۔

معاشرے میں اتحاد اس قدر ضروری اور اہم ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ بچھڑے کی پوجا کرنے کے معاملے میں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جواب میں اسی مسئلہ کا اظہار کیا تھا۔ روایات کے مطابق حضرت موسیٰ 30 دن کے لیے طور پہاڑ پر خدا کی عبادت کے لیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ وہ مزید 10 دن وہاں قیام کریں۔ ان 10 دنوں میں سامری نے لوگوں کو دھوکہ دیا اور بہت سے لوگ بچھڑے کی پوجا کرنے والے بن گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ کچھ لوگ بچھڑے کی پوچا کرنے والے ہو گئے ہیں، آپ نے اپنے بھائی سے شکایت کی کہ آپ نے کچھ نہیں کیا اور لوگوں کو بچھڑے کی پرستش سے کیوں نہیں روکا؟

حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں فرمایا: قَالَ یَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلَا بِرَأْسِی إِنِّی خَشِیتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی [طہ/ 96] ؛ کہنے لگے کہ اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیے، میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات (بنی اسرائیل کے اتحاد کو برقرار رکھنے میں) کو ملحوظ نہ رکھا۔

یہ آیات بتاتی ہیں کہ معاشرے کے لوگوں کے درمیان اتحاد بہت ضروری اور اہم ہے، اس حد تک کہ یہ لوگوں کے بچھڑے کی پرستش کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ بنی اسرائیل کو دو گروہ بننے سے روکنے کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام نے ان کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے کا انتظار کیا تو لوگوں میں وحدت اور امت کا اتحاد زیادہ ضروری ہے۔

آج بھی اسلامی معاشرے کا اتحاد معاشرے کی ضروریات میں سے ہے، دینی اتحاد بھی اتحاد کے اہم ترین مظہروں میں سے ایک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی ملک میں رہنے والے شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اسلامی معاشرے کو آگے بڑھائیں اور خونخوار دشمن اور سامراج کا مقابلہ کریں جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔

ای میل کریں