ہاتھ اٹھا دل سے کہ جاں تا بلب آپہونچی ہے
دن تو سب کٹ گیا فرقت میں شب آپہونچی ہے
جان غمدیدہ سے کہتا ہوں کہ غمگین نہ ہو
موسم غم گیا، فصل طرب آپہونچی ہے
لے سواری تو مرے یوسف گم گشتہ کی
از سر راہ دل ملتہب آپہونچی ہے
راز کھولا دل بسمل نے، تو سینہ سے مرے
لہرسی اٹھ کے درون عصب آپہونچی ہے
قمری قدس نے بھی قدس کو چھوڑا آخر
جو چنا اس نے اسی در پہ اب آپہونچی ہے
دے سکا امن و امان کا نہ پتہ دار سلام
جان اب تا حد دار العجب آپہونچی ہے