فلسطین نئے انتفاضہ کے دہانے پر

فلسطین نئے انتفاضہ کے دہانے پر

مقبوضہ فلسطین میں اب تک دو بار انتفاضہ جنم لے چکا ہے۔ پہلا انتفاضہ 1987ء جبکہ دوسرا انتفاضہ 2000ء میں تشکیل پایا تھا

تحریر: علی احمدی

 

مقبوضہ فلسطین میں اب تک دو بار انتفاضہ جنم لے چکا ہے۔ پہلا انتفاضہ 1987ء جبکہ دوسرا انتفاضہ 2000ء میں تشکیل پایا تھا۔ گذشتہ ایک عشرے سے مقبوضہ فلسطین میں تیسرا انتفاضہ شروع ہونے کے آثار تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ 2000ء میں دوسرے انتفاضہ کے بعد شرم الشیخ میں فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور صہیونی رژیم کے صدر ایریل شارون کے درمیان امن مذاکرات انجام پائے تھے۔ اس وقت سے لے کر اب تک انجام پانے والے تمام مذاکرات ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے بعض عرب ممالک سے خفیہ معاہدے انجام دے کر مقبوضہ فلسطین پر اپنا غاصبانہ تسلط برقرار رکھا ہے جبکہ فلسطینی شہری مسلسل اس غاصب رژیم کے خلاف مزاحمت کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ مزاحمت شہادت پسندانہ کاروائیوں کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔

 اگرچہ غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ ساتھ فلسطین اتھارٹی بھی فلسطینی مجاہدین کے خلاف شدید دباو ڈالے ہوئے ہے لیکن مزاحمتی کاروائیاں بدستور جاری ہیں اور اب تک کئی بڑی کاروائیاں بھی انجام پا چکی ہیں۔ چند بڑی مزاحمتی کاروائیوں میں 2017ء میں باسل الاعرج کی شہادت پسند کاروائی، 2018ء میں شہید احمد جرار کی کاروائی، 2018ء میں ہی شہید اشرف نعالوہ کی جانب سے برکان انڈسٹریل ایریا میں کاروائی اور 2019ء میں شہید عمر ابولیلی کی کاروائی شامل ہیں۔ 2021ء میں دو اہم واقعات رونما ہوئے؛ ایک صہیونی عدالت کی جانب سے قدس شریف سے ملحق شیخ جراح محلے کو خالی کر کے وہاں یہودی آبادکاروں کو بسانے کا حکم تھا اور دوسرا چھ فلسطینی قیدیوں کی جانب سے سرنگ کھود کر اسرائیلی جیل سے بھاگ نکلنے کا واقعہ تھا۔

شیخ جراح محلہ قدس شریف کے مشرق میں پرانے شہر میں واقع ہے۔ گذشتہ برس صہیونی فورسز نے یہاں سے فلسطینی مسلمان شہریوں کو نکال باہر کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا تھا جس کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور احتجاجی مظاہروں کا دائرہ مغربی کنارے تک پھیل گیا تھا۔ صہیونی فورسز اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دسیوں فلسطینی شہید ہو گئے جس کے بعد غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صہیونی رژیم کو الٹی میٹم دے دیا۔ لیکن صہیونی رژیم کی جانب سے اس الٹی میٹم پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں سیف القدس نامی معرکے کا آغاز ہو گیا جس میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے تل ابیب سمیت دیگر علاقوں کو شدید میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ معرکہ گیارہ روز جاری رہا۔

سیف القدس معرکے کے دوران اکثر اسلامی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ خود مختلف فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد کی فضا نے بھی صہیونی دشمن کو شدید خوفزدہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں صہیونی حکمرانوں نے مصر اور دیگر عرب ممالک کی وساطت سے جنگ بندی کی اپیل کر دی۔ اسلامی مزاحمت نے جنگ بندی کی شرائط پیش کیں جنہیں من و عن تسلیم کر لیا گیا۔ دوسری طرف مئی 2021ء میں اسرائیل کے ہائی سکیورٹی جیل "جلبوع" سے چھ فلسطینی قیدی سرنگ کھود کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ صہیونی فورسز ان قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن یہ اقدام فلسطینیوں کے حوصلے بڑھانے میں انتہائی موثر ثابت ہوا کیونکہ فلسطینی قیدیوں کے عزم و ارادے کا عکاس تھا۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے جارحانہ کاروائیوں کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2021ء میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے 287 شدت پسندانہ اقدامات انجام پائے جن میں 5 فلسطینی شہید اور 137 فلسطینی زخمی ہو گئے۔ شدت پسندانہ اقدامات کی یہ تعداد 2020ء میں رونما ہونے والے مشابہہ واقعات سے دو گنا زیادہ جبکہ 2019ء میں رونما ہونے والے واقعات سے تین گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2021ء میں غاصب صہیونی فوجیوں نے 14 بچوں سمیت 67 فلسطینیوں کو شہید کر دیا اور یہ تعداد 2020ء میں شہید ہونے والوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ 2020ء میں صہیونی رژیم نے فلسطینیوں کے 666 گھر مسمار کر دیے اور 958 فلسطینیوں کو جلاوطن کر دیا۔

مقبوضہ فلسطین میں نئے انتفاضہ کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے شدت پسندانہ اقدامات میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت پسندانہ کاروائیاں شروع کر دی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ان کاروائیوں کے نتیجے میں 14 صہیونی ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسی طرح غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سمیت مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد کی فضا قائم ہوتی جا رہی ہے۔ نئے انتفاضہ کی ایک اور اہم علامت سیاسی سازباز اور نام نہاد امن مذاکرات کی واضح ناکامی ہے۔ غاصب صہیونی رژیم بعض عرب حکمرانوں سے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے باوجود ایک سیاسی راہ حل تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔

ای میل کریں