یتیموں سے امام علی علیہ السلام کی محبت اور لگاو
آپ کو یتیموں کا اس درجہ خیال تھا کہ آپ نے اپنی آخری وصیت میں ارشاد فرمایا:یتیموں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھوکے رہ جائیں اور معاشرے کی چکاچوندھ میں وہ کھو جائیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہ رہے چونکہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ اگر کوئی کسی یتیم کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کردے تو اللہ اس کے اس عمل کے بدلے،اس پر جنت واجب کردے گا اسی طرح اگر کسی نے یتیم کے مال کو چھین کر کھایا ہو تو اللہ اس پر جہنم واجب کردے گا۔
نیک بندوں کے لئے اللہ کی مرضی اور اس کی خوشنودی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا، امام علی علیہ السلام جیسا انسان جسکی بہادری کا پورا عرب گواہ ہو جس کے مقابلہ پر آنے والا زندہ بچ نہ گیا ہو اس بہادر انسان نے اللہ کی مرضی کے علاوہ کبھی میدان میں قدم نہیں رکھا ۔لیکن جب آپ رات کی تنہائی میں اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے تو آنسؤوں کا ایسا سیلاب امڈتا کہ لباس شرابور ہوجاتا اور آخر میں آپ پر غش طاری ہوجاتا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے آپ سے زیادہ ڈرنے والا کوئی اور نہیں چنانچہ آپ کی اسی صفت کو دیکھتے ہوئےعرب کا مشہور شاعر کہتا ہے:
اے علی(ع) آپ کے وجود میں متضاد چیزیں جمع ہوگئی ہیں۔
بے شک! علی(ع) اللہ کے دشمن کے مقابلے میں بالکل سخت لیکن یتیم بچوں کے ساتھ اس قدر مہربان تھے کہ ان کے سامنے خود زمین پر بیٹھ کر ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے اور درد بھری آہ بھرتے تھے چنانچہ خود فرماتے ہیں جتنی درد ناک آہ میری یتیم بچوں کے سامنے نکلتی ہے اتنی کسی اور موقع پر نہیں نکلتی۔ اور آپ کو یتیموں کا اس درجہ خیال تھا کہ آپ نے اپنی آخری وصیت میں ارشاد فرمایا:یتیموں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھوکے رہ جائیں اور معاشرے کی چکاچوندھ میں وہ کھو جائیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہ رہے چونکہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ اگر کوئی کسی یتیم کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کردے تو اللہ اس کے اس عمل کے بدلے،اس پر جنت واجب کردے گا اسی طرح اگر کسی نے یتیم کے مال کو چھین کر کھایا ہو تو اللہ اس پر جہنم واجب کردے گا۔
یا اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: جو بھی مؤمن یا مؤمنہ کسی یتیم کے سر پر دست محبت و شفقت پھیرے اللہ تعالٰی اس کے ہاتھ کے نیچے آنے والے بالوں کی تعداد کے برابر اس کے لئے نیکیاں اور ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھے گا۔
اے بچوں علی(ع) کو معاف کردو
ایک دن امام علی علیہ السلام کوفہ کی گلی میں اکیلے جارہے تھے آپ بھی دیگر مسلمانوں کی طرح سادگی کے ساتھ دھیرے دھیرے چل رہے تھے اور آس پاس نگاہ بھی رکھے ہوئے تھے کیونکہ آپ پورے سماج کے رہبر اور پوری امت کے امام تھے اور ہر ایک پر نظر رکھنا آپ کی ذمہ داری تھی چنانچہ راستہ میں آپ نے ایک عورت کو دیکھا جو پانی کی مشک(قدیم زمانے میں کنویں سے پانی بھرنے کے لئے جانور کے کھال سے ایک ظرف بنایا جاتا تھا) اپنے کندھے پر رکھے جارہی تھی اور اس مشک کے بوجھ کے سبب اس کی سانسیں پھول رہی تھیں آپ نے اس کے قریب پہونچ کر دیکھا تو وہ پوری طرح تھک چکی تھی آپ نے اس سے مشک لیکر اپنے کندھے پر رکھی اور راستہ چلتے ہوئے اس کی خیریت اور حال چال دریافت کئے اس خاتون نے بتایا کہ اس کا شوہر کسی جنگ میں امام علی(ع) کے لشکر کی طرف سے شہید ہوگیا اور اب میں اور میرے یتیم بچے بنا کسی وارث اور سرپرست کے رہ گئے ہیں۔ روایت کہتی ہے کہ علی(ع) گھر تو آگئے لیکن آپ کی وہ پوری رات بڑی بے چینی میں گذری پھر صبح سویرے کھانے کے سامان کی گٹھری لیکر اس عورت کے گھر کی طرف چل دیئے راستے میں کئی لوگوں نے چاہا کہ آپ سے وہ سامان لے لیں لیکن آپ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن ہمارے اعمال نامے کا بوجھ کون لیکر چلے گا؟
آپ نے اس عورت کے گھر کے دروازے پر پہونچ کر دق الباب کیا عورت نے پوچھا کون؟ آپ نے جواب دیا: وہی جس نے کل تمہاری مدد کی تھی اور پانی کی مشک گھر تک پہونچایا تھا۔میں تمہارے بچوں کے لئے کھانے کا کچھ سامان لیکر آیا ہوں دروازہ کھول کر یہ سامان لے لیجیئے۔
اس عورت نے کہا: اے بندہ خدا! اللہ تجھ سے راضی رہے اور میرے اور علی(ع) کے درمیان فیصلہ کرے۔
امام علی(ع) گھر کے اندر گئے اور اس عورت سے کہا تم اپنے بچوں کو بہلاؤ میں تمہارے لئے روٹی پکا دیتا ہوں۔اس خاتون نے کہا: اے بندہ خدا روٹی پکانا میرا کام ہے میں جلد بنا لوں اگر ہوسکے تو تم میرے بچوں کو بہلا لیجئے!
اس عورت نے علی(ع) کے لائے ہوئے آٹے کو خمیر کیا اور علی(ع) کے لائے ہوئے گوشت کے کباب بنائے ادھر امام علی(ع) علیہ السلام بچوں کو کھجور کھلا رہے تھے اور بڑی محبت اور نوازش سے بچوں سے پیش آرہے تھے بچوں کو کچھ کھانے کے لئے دیتے اور ان سے کہتے کہ بچوں اللہ سے کہو کہ علی(ع) کو معاف کردے!
جب اس خاتون نے آٹے سے خمیر تیار کرلیا حضرت نے گھر میں بنے تنور میں آگ جلائی اور جب تنور مکمل طور پر روٹی کے لئے تیار ہوگیا تو آپ اپنے چہرے اقدس کو آگ کے قریب لے گئے اور کہہ رہے تھے: اے علی! دیکھو دنیا کی آگ کتنی خطرناک ہے، خیال رکھنا آخرت کی آگ اس سے زیادہ گرم اور خطرناک ہوگی۔
اسی درمیان پڑوس کی ایک خاتون کہ جو علی(ع) کو پہچانتی تھی گھر میں داخل ہوئی اور ان بچوں کی ماں پر چلاتی ہوئی بولی: وائے ہو تم پر تمہیں پتہ نہیں کہ یہ کون ہے! یہ مسلمانوں کے خلیفہ اور حاکم اور جانشین رسول خدا(ص) حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
وہ عورت اپنے رویہ سے شرمندہ ہوکر دوڑتی ہوئی امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگی میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں مجھے معاف کردیجئے!
لیکن امام علیہ السلام نے بڑی بردباری کے ساتھ فرمایا کہ تم مجھے معاف کردو کہ میں ابھی تک تمہاری مشکلات کو دور نہیں کرسکا تھا اللہ سے دعا کرنا کہ وہ علی(ع) کو معاف کردے۔(بحار الانوار،ج۴۱،ص۵۲)
اسی طرح امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دور میں ایران کے ہمدان شہر کا رہنے والا ایک شخص امام علیہ السلام کی بارگاہ میں شہد اور انجیر کاتحفہ لیکر آیا امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ یتیم بچوں کو لیکر آؤ ، جب بچے آگئے تو آپ نے شہد کی مشک کھول کر کہا بچوں جتنا شہد کھانا ہو کھالو پھر اسی مشک سے برتنوں میں شہد نکالنے کا حکم دیا کہ اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے کچھ لوگوں نے امام علیہ السلام کے اس عمل پر اعتراض کیا کہ آپ نے یتیموں کو مشک سے کیوں منھ لگا کر پینے دیا۔